باب: کھجور اور منقی کے شربت (نبیذ) سے وضو کرنا...؟
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wudu' Using An-Nabidh)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
86.
جناب عطاء بن ابی رباح ؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے دودھ اور نبیذ سے وضو کو مکروہ کہا ہے۔ اور فرمایا کہ مجھے ان سے وضو کرنے کی بجائے تیمم کرنا زیادہ پسند ہے۔
تشریح:
فوائد و مسائل: (1) پانی میں کوئی پاک چیز مل جائے تو اس کے پاک رہنے میں کوئی شبہ نہیں، مگر لازمی ہے کہ اس اختلاط سے پانی پانی ہی رہے۔ اگر وہ مائع پانی کے بجائے شربت، لسی یا شوربے وغیرہ سے موسو م ہوجاتا ہے تو وہ پانی نہ رہا اور اس سے وضو یا غسل کا کوئی معنی نہیں۔ (2) ’’نبیذ‘‘ عرب کا خاص مشروب ہے جو وہ خشک کھجور یا منقیٰ کو پانی میں بھگوئے رکھنے سے تیار کرتے تھے جیسے ہمارے ہاں املی او رآلو بخارے سےشربت بنایا جاتا ہے۔ (3) رسول اللہﷺ انسانوں کی طرح جنوں کی طرف بھی مبعوث کیے گئے تھے، کئی ایک مواقع پر آپ نے انہیں تبلیغ اور وعظ بھی فرمایا تھا۔ قرآن مجید میں سورۂ جن بالخصوص اس مسئلے کو واضح کرتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ثقات؛ فهو أثر ثابت إذا كان ابن جريح سمعه منه) . إسناده: حدثنا محمد بن بشار: ثنا عبد الرحمن: ثنا بشر بن منصور عن ابن جريج. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ فهو صحيح؛ إذا كان ابن جريج
سمعه من عطاء ولم يدلسه عنه. وعبد الرحمن هذ - وفي الإسناد الذي بعده-: هو ابن مهدي. وهذا الأثر؛ أخرجه البيهقي من طريق المؤلف. وتابعه عبد الرزاق (1/179) عن ابن جريج... به دون قوله: والنبيذ... وعلق عليه المتعصب الأعظمي بقوله: روى ابن أبي شيبة عن علي وعكرمة جواز الوضوء بالنبيذ إ! فأقول: لقد جمع الشيخ- هداه الله- في هذا التخريج: بين تحريف النص، وكتمان العلم! أما الأول: فإن عكرمة لم يطلق ذلك؛ بل قيده بمن لا يجد الماء؛ فإنه قال:
الوضوء بنبيذ لمن لم يجد الماء!وأما الأخر: فإنه لا يصح إسناده عن علي؛ لأنه من رواية حجاج عن أبي إسحاق عن الحارث عن علي. وهذا إسناد واهً بمرة: الحارث: هو الأعور، ضعيف اتهمه بعضهم. والحجاج- وهو ابن أرطاة-، وأبو إسحاق- وهو السبيعي- مدلسان، مع اختلاط السبيعي.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب عطاء بن ابی رباح ؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے دودھ اور نبیذ سے وضو کو مکروہ کہا ہے۔ اور فرمایا کہ مجھے ان سے وضو کرنے کی بجائے تیمم کرنا زیادہ پسند ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل: (1) پانی میں کوئی پاک چیز مل جائے تو اس کے پاک رہنے میں کوئی شبہ نہیں، مگر لازمی ہے کہ اس اختلاط سے پانی پانی ہی رہے۔ اگر وہ مائع پانی کے بجائے شربت، لسی یا شوربے وغیرہ سے موسو م ہوجاتا ہے تو وہ پانی نہ رہا اور اس سے وضو یا غسل کا کوئی معنی نہیں۔ (2) ’’نبیذ‘‘ عرب کا خاص مشروب ہے جو وہ خشک کھجور یا منقیٰ کو پانی میں بھگوئے رکھنے سے تیار کرتے تھے جیسے ہمارے ہاں املی او رآلو بخارے سےشربت بنایا جاتا ہے۔ (3) رسول اللہﷺ انسانوں کی طرح جنوں کی طرف بھی مبعوث کیے گئے تھے، کئی ایک مواقع پر آپ نے انہیں تبلیغ اور وعظ بھی فرمایا تھا۔ قرآن مجید میں سورۂ جن بالخصوص اس مسئلے کو واضح کرتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عطاء سے روایت ہے کہ وہ دودھ اور نبیذ سے وضو کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے: اس سے تو مجھے تیمم ہی زیادہ پسند ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It is reported that 'Ata did not approve of performing ablution with milk and nabidh and said: tayammum is more my liking (than performing ablution with milk and nabidh).