باب: کھجور اور منقی کے شربت (نبیذ) سے وضو کرنا...؟
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wudu' Using An-Nabidh)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
87.
ابوخلدہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب ابوالعالیہ (تابعی) سے پوچھا کہ ایک شخص جسے جنابت لاحق ہوئی ہو، اس کے پاس پانی نہ ہو مگر نبیذ (کھجور یا کشمش کا پانی) موجود ہو تو کیا وہ اس سے غسل کر لے؟ انہوں نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري) . إسناده: حدثنا محمد بن يشار: ثنا عبد الرحمن: ثنا أبو خلدة.
وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري، وأبو خلدة: اسمه خالد بن دينار. وهذا الأثر؛ أخرجه البيهقي من طريق المؤلف.
ورواه ابن أبي شيبة (1/26) ، والدارقطني (29) من طريق مروان بن معاوية: نا أبو خلدة... به، وزاد الدارقطني في آخره: فذكرت له ليلة الجن؟ فقال: آنْبِذَتُكًمْ هذه الخبيثةُ؟! إنما كان ذلك زبيب وماء. قلت: يعني: أنه لم يكن خرج بذلك عن كونه ماءً مطلقاً. وقد قال الطحاوي: وقد أجمع العلماء أن نبيذ التمر إذا كان موجوداً في حال وجود االماء: أنه لا
يتوضأ به؛ لأنه ليس ماءً، فلما كان خارجاً من حكم الياه في حال وجود الماء؛ كان كذلك هو في حال عدم الماء . وهو بذلك يرد على أبي حنيفة إمامه الذي قال بجواز الوضوء بالنبيذ إن لم يجد غيره! وتمام كلامه يراجع في شرح المعاني له.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ابوخلدہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب ابوالعالیہ (تابعی) سے پوچھا کہ ایک شخص جسے جنابت لاحق ہوئی ہو، اس کے پاس پانی نہ ہو مگر نبیذ (کھجور یا کشمش کا پانی) موجود ہو تو کیا وہ اس سے غسل کر لے؟ انہوں نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوخلدہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالعالیہ سے اس شخص کے متعلق پوچھا جسے جنابت لاحق ہوئی ہو اور اس کے پاس پانی نہ ہو، بلکہ نبیذ ہو تو کیا وہ اس سے غسل کر سکتا ہے؟ آپ نے کہا: نہیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Khaldah: I asked Abu'l-'Aliyah whether a person who is sexually defiled and has no water with him, but he has only nabidh, can wash with it? He replied in the negative.