باب: پیشاب پاخانہ کی حاجت ہونے کی حالت میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Should A Person Offer Salat When He Fees to Urge To Relieve Himself)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
90.
سیدنا ثوبان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تین کام کسی کو روا نہیں ہیں۔ یعنی کوئی شخص کسی قوم کی امامت کرائے تو اہل جماعت کو چھوڑ کر خاص اپنے لیے دعا نہ کرے۔ اگر ایسا کیا تو ان سے خیانت کی۔ اجازت ملنے سے پہلے ہی کسی کے گھر کے اندر نہ جھانکے۔ اگر ایسا کیا تو گویا (بغیر اجازت) اندر داخل ہوا۔ کوئی شخص پیشاب پاخانہ روکے ہوئے نماز نہ پڑھے حتیٰ کہ فراغت حاصل کر لے۔‘‘
تشریح:
فائدہ: شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔ اس میں آخری دو باتیں تو دوسری احادیث سے بھی ثابت ہیں۔ لیکن اول الذکر بات محل نظر ہے، اس لیے کہ نماز میں بعض دعائیں ایسی بھی ہیں جن میں صیغۂ واحد ہی استعمال ہوا ہے اور امام سمیت ہر شخص انہیں صیغۂ واحد ہی کے ساتھ پڑھتا ہے۔ اس لیے اسے امام کی خیانت سے تعبیر کرنا کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے؟
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف، وضعفه شيخا الإسلام ابن تيمية وابن القيم. وقال ابن خزيمة في الجملة الأولى منه: إنه حديث موضوع ) . إسناده: حدثنا محمد بن عيسى: ثنا ابن عيّاش عن حبيب بن صالح. وهذا إسناد ظاهره الاستقامة؛ فإن رجاله كلهم موثقون؛ غير أن يزيد بن شريح الحضرمي وشيخه أبا حي المؤذن- واسمه شدّادُ بن حي- غير مشهورين بالحفظ والعدالة، وغاية ما قيل في الأول: إنه صالح [من] أهل الشام، وذكره ابن حبان في الثقات ! وهو معروف بتساهله في التوثيق. وأما الدارقطني فقال: يعتبر به ؛ أي: ولا يحتج به إذا انفرد. وهذا مما تفرد به كما يأتي، فلا
يحتج به. ولذلك قال الحافظ في التقريب : إنه: مقبول ؛ يعني: إذا توبع؛ وإلا فلين الحديث، كما نص على ذلك في المقدمة. وأما أبو حي المؤذن؛ فهو مثل يزيد أو دونه؛ فإنه لم يذكره أحد من النقاد غير ابن حبان في الثقات .
وأشار الذهبي في الكاشف إلى تضعيف توثيقه بقوله: وُثق ! وأما الحافظ؛ فقال فيه: صدوق ! على أن للحديث علة أخرى تزيد في وهنه وضعفه؛ وهي اضطراب يزيد بن شريح في إسناده كما يأتي بيانه. والحديث أخرجه الترمذي (2/189) ، وأحمد (5/285) من طريقين آخرين عن إسماعيل بن عياش... به. وتابعه بقية عن حبيب بن صالح. أخرجه أحمد وابن ماجه (1/213 و 296- 297) . وتابعه محمد بن الوليد عن يزيد بن شريح. أخرجه البخاري في الأدب المفرد (ص 158) . وخالفهما غيرهما كما يأتي، ثم قال الترمذي: حديث ثوبان حديث حسن. وقد روي هذا الحديثُ عن معاوية بن صالح عن السفْرِ بن نًسيْر عن يزيد بن شريح عن أبي أمامة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وروي عن يزيد بن شريح عن أبي هريرة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وكأن حديث يزيد بن شريح عن أبي حي المؤذن عن ثوبان- في هذا- أجود إسناداً وأشهر . قلت: اْما حديث أبي هريرة؛ فقد رواه يزيد عن أبي حي- أيضاً- كما رواه
المصنف، ويأتي في الكتاب عقب هذا. أما حديث معاوية بن صالح؛ فهو في المسند (5/255 و 260 و 261) ،
وزاد في الرواية الأخيرة: فقال شيخ لما حدثه يزيد: أنا سمعت أبا أمامة يحدث بهذا الحديث. قلت: وهذه المتابعة لا حجة فيها؛ لجهالة الشيخ الذي لم يُسمُّ، ولأن الراوي عنهما معاً: هو السفْرُ بن نًسيْر، وهو ضعيف، كما في التقريب وبالجملة؛ فالحديث ضعيف؛ لهذا الاضطراب الشديد، ولأن الجملة الأولى منه مخالفة لهديه عليه السلام المعروف في أدعيته في صلاته؛ فإنها كلها- أو جلها- بلفظ الإفراد، فانظر أمثلة منها فيما يأتي في (...) . فلا جرم أنْ ضعّف الحديث شيخُ الإسلام ابن تيمية في الفتاوى (1/177- 178) ، وتبعه تلميذه المحقق ابن القيم، فقال في الزاد (1/95) :
قال ابن خزيمة في صحيحه - وقد ذكر حديث: اللهم! باعد بيني وبين خطاياي... الحديث، قال-: في هذا دليل على رد الحديث الموضوع: لا يؤم عبد قوماً، فيخص نفسه بدعوة دونهم، فإن فعل؛ فقد خانهم ... . ثم رأيت كلام ابن خزيمة في صحيحه (3/63) في ذلك، فذكر أنه غير ثابت، واستدل بحديث: باعد . فعلمت أن ابن القيم نقل كلامه بالمعنى؛ أو أن ابن خزيمة حكم بالوضع في كتابه الكبير . وأما الجملة الأخيرة منه؛ فقد أخرجها ابن ماجه أيضاً (617) عن معاوية بن صالح... به. وهي صحيحة لشواهدها الآتي الإشارة إليها.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا ثوبان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تین کام کسی کو روا نہیں ہیں۔ یعنی کوئی شخص کسی قوم کی امامت کرائے تو اہل جماعت کو چھوڑ کر خاص اپنے لیے دعا نہ کرے۔ اگر ایسا کیا تو ان سے خیانت کی۔ اجازت ملنے سے پہلے ہی کسی کے گھر کے اندر نہ جھانکے۔ اگر ایسا کیا تو گویا (بغیر اجازت) اندر داخل ہوا۔ کوئی شخص پیشاب پاخانہ روکے ہوئے نماز نہ پڑھے حتیٰ کہ فراغت حاصل کر لے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ: شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔ اس میں آخری دو باتیں تو دوسری احادیث سے بھی ثابت ہیں۔ لیکن اول الذکر بات محل نظر ہے، اس لیے کہ نماز میں بعض دعائیں ایسی بھی ہیں جن میں صیغۂ واحد ہی استعمال ہوا ہے اور امام سمیت ہر شخص انہیں صیغۂ واحد ہی کے ساتھ پڑھتا ہے۔ اس لیے اسے امام کی خیانت سے تعبیر کرنا کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ثوبان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تین چیزیں کسی آدمی کے لیے جائز نہیں: ایک یہ کہ جو آدمی کسی قوم کا امام ہو وہ انہیں چھوڑ کر خاص اپنے لیے دعا کرے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے ان سے خیانت کی، دوسرا یہ کہ کوئی کسی کے گھر کے اندر اس سے اجازت لینے سے پہلے دیکھے، اگر اس نے ایسا کیا تو گویا وہ اس کے گھر میں گھس گیا، تیسرا یہ کہ کوئی پیشاب و پاخانہ روک کر نماز پڑھے، جب تک کہ وہ (اس سے فارغ ہو کر) ہلکا نہ ہو جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Thawban (RA): The Messenger of Allah (ﷺ) said: Three things one is not allowed to do: supplicating Allah specifically for himself and ignoring others while leading people in prayer; if he did so, he deceived them; looking inside a house before taking permission: if he did so, it is as if he entered the house, saying prayer while one is feeling the call of nature until one eases oneself.