تشریح:
1۔ شیخ البانی کے نزدیک یہ روایت سند اضعیف ہے۔ تاہم پچھلی صحیح حدیث اس کی مویئد ہے۔
2۔ نماز میں چھینک کا جواب دیناجائز نہیں ہے۔ البتہ خود چھینک مارنے والا اگر خاموشی سے الحمد للہ کہے تو جائز ہے۔
3۔ نماز میں ضرورت کا اشارہ جائز ہے۔
4۔ دعوت وتعلیم اسلام میں نرمی اور اخوت کا انداز اپنانا واجب ہے۔
5۔ کاہنوں کے پاس جانا اور ان سے غیب کی خبریں دریافت کرنا حرام ہے۔ اس طرح بدفالی اور بدشکونی لینا بھی ناجائز ہے۔
6۔ علم خطوط دراصل وحی شدہ علم تھا۔ مگر اٹھا لیا گیا۔ اسے حضرت ادریس ؑ یا دانیالؑ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اب اس میں مشغول ہونا اندھیرے میں ٹامک ٹویئاں مارنا ہے۔ اس پر کسی طرح بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ نبی کریم ﷺکے مذکورہ جوابات میں حق کا اثبات اور باطل کا ابطال نہایت عمدہ انداز میں ہوا ہے۔ اس میں داعی اور مفتی حضرات کےلئے بہت بڑا درس ہے۔
7۔ خادم وغیرہ کو بلاوجہ معقول سزا دینا ظلم اور ناجائز ہے۔ چاہیے کہ انسان اس کا کفارہ ادا کرے۔
8۔ اسلام کی تعلیمات عقائد واعمال انتہائی سادہ اور فطرت کے مطابق ہیں اور ان کی بنیاد توحید ورسالت پرہے۔
9۔ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے۔ اور اس کی طرف جہت وجانب کی نسبت کرنا عین حق ہے۔
10۔ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور آخری نبی کریم ﷺ ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ فليح- وهو ابن سليمان المدني- ضعفه جماعة. وقال المصنف: لا يحتج به . وقد روى الحديث غير فليح من الثقات عن هلال بسياق أتمّ من هذا، ولم يذكر فيه هذا الذي ذكره فليح من حمْدِ الرّجلِ بعد العُطاس وغيره. وهو في الكتاب الآخر (862) ) . إسناده: حدثنا محمد بن يونس النسائي: ثنا عبد الملك بن عمرو: ثنا فليح ... قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير محمد بن يونس النسائي، وهو ثقة. وإنما علته سوء حفظ فليح- وهو ابن سليمان-؛ فإنه مع احتجاج الشيخين به؛ فقد ضعفه جماعة، كابن معين وأبي حاتم والنسائي. وقال المصنف: لا يُحْتجُ به . ولهذا قال الحافظ: صدوق كثير الخطأً . قلت: ولعل هذا الحديث مما يدل على ضعفه وسوء حفظه، فقد خالفه يحيى ابن أبي كثير، فرواه عن هلال بن أبي ميمونة- وهو هلال بن علي بن أسامة- عن عطاء بن يسار... به أتم منه. ومع ذلك فلم يذكر فيه أن الرجل حمد اللّه بعد أن عطس، ولا قول معاوية: فكان فيما علمت... فقل: يرحمك الله . وباقي الحديث موافق له في المعنى، مخالف له في اللفظ، مما يدل على أنه كان غير ضابط ولا حافظ. فمثله يستشهد به فيما وافق فيه الثقات، ولا يحتج به- كما قال المص ف- إذا وحديث يحيى في الكتاب الآخر (862) . والحديث أخرجه الطحاوي (1/258) : حدثنا ابن مرزوق قال: ثنا أبو عامر... به.