Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Excessiveness In The Water For Ablution)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
96.
سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ نے (ایک بار) اپنے صاحبزادے کو دعا کرتے سنا (جو یوں کہہ رہا تھا) اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جب میں جنت میں داخل ہوں تو مجھے اس کی دائیں جانب سفید محل عنایت ہو۔ اس پر سیدنا عبداللہ ؓ نے فرمایا: بیٹا! اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور دوزخ سے پناہ مانگو۔ بیشک میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ ﷺ فرماتے تھے میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو طہارت میں اور دعا مانگنے میں حد سے زیادہ مبالغہ کریں گے۔
تشریح:
فوائد ومسائل: (1) معلوم ہوا کہ طہارت (استنجا، وضو اور غسل وغیرہ) میں حد سے زیادہ پانی بہانا ناجائز ہے، بالخصوص استنجا کے سلسلے میں وہم میں مبتلا رہنا، شریعت نہیں، بلکہ وضو کے بعد شرم گاہ والی جگہ پر چھینٹے مار لینے چاہییں۔ (2) دعا بھی جامع ہونی چاہیے جیسے کہ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور اور مسنون ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكذا قال النووي، وصححه ابن حبان (6745) ، والحاكم والحافظ، وقال ابن كثير: إسناده حسن لا بأس به ) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد: ثنا سعيد الجريري عن أبي نعامة. وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير أبي نعامة- واسمه قيس بن عبَاية الحنفي الرماني-، وهو ثقة اتفاقاً. وحماد: هو ابن سلمة. والحديث أخوجه الحاكم والبيهقي- من طريق موسى بن إسماعيل-، وأخرجه ابن ماجه (2/439- 449) ، وابن حبان (171) ، وأحمد (4/87 و 5/55) - من طرق- عن حماد بن سلمة... به. وقال الحاكم: صحيح .
وتعقبه الذهبي بقوله: فيه إرسال !! ولم يظهر لي وجهه؛ فإن أبا نعامة هذا لم يرم بتدليس؛ ولقاؤه لابن مغفل
ممكن؛ فإن هذا مات نحو المستين من الهجرة، وذاك فيما بعد سنة عشر ومالْة، فبين وفاتيهما نحو خمسين سنة، وليس لدينا دليل ينفي أن يكون أبو نعامة عاش أكثر من هذه المدة حتى لا يمكن له السماع من ابن مغفل! ولذلك صحح الحديث
النووي في المجموع ؛ (2/190) ، فقال: رواه أبو داود بإساد صحيح . وقال الحافظ في التلخيص (2/191) :
وهو صحيح؛ رواه أحمد، وابن ماجه، وابن حبان، والحاكم وغيرهم . قلت: وليس عند ابن ماجه فيه الاعتداء في الطهور. وكذلك روي من طريق أخرى عن أبي نعامة، كما سيأًتي في آخر الصلاة (1330)
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ نے (ایک بار) اپنے صاحبزادے کو دعا کرتے سنا (جو یوں کہہ رہا تھا) اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جب میں جنت میں داخل ہوں تو مجھے اس کی دائیں جانب سفید محل عنایت ہو۔ اس پر سیدنا عبداللہ ؓ نے فرمایا: بیٹا! اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور دوزخ سے پناہ مانگو۔ بیشک میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ ﷺ فرماتے تھے میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو طہارت میں اور دعا مانگنے میں حد سے زیادہ مبالغہ کریں گے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: (1) معلوم ہوا کہ طہارت (استنجا، وضو اور غسل وغیرہ) میں حد سے زیادہ پانی بہانا ناجائز ہے، بالخصوص استنجا کے سلسلے میں وہم میں مبتلا رہنا، شریعت نہیں، بلکہ وضو کے بعد شرم گاہ والی جگہ پر چھینٹے مار لینے چاہییں۔ (2) دعا بھی جامع ہونی چاہیے جیسے کہ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور اور مسنون ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابونعامہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل ؓ نے اپنے بیٹے کو کہتے سنا: اے اللہ! میں جب جنت میں داخل ہوں تو مجھے جنت کے دائیں طرف کا سفید محل عطا فرما، آپ نے کہا: میرے بیٹے! تم اللہ سے جنت طلب کرو اور جہنم سے پناہ مانگو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ’’اس امت میں عنقریب ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو طہارت اور دعا میں حد سے تجاوز کریں گے‘‘ ۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : طہارت میں حد سے تجاوز کا مطلب یہ ہے کہ وضو، غسل یا آب دست میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ’’تحدید‘‘ سے زیادہ بلا ضرورت پانی بہایا جائے، اور دعا میں حد سے تجاوز کا مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں چھوڑ کر دوسروں کی تکلفات سے بھری، مقفیٰ اورمسجّع دعائیں پڑھی جائیں، یا حد ادب سے تجاوز ہو، یا صلہ رحمی کے خلاف ہو، یا غیر شرعی خواہش ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Mughaffal (RA): 'Abdullah heard his son praying to Allah: O Allah, I ask Thee a white palace on the right of Paradise when I enter it. He said: O my son, ask Allah for Paradise and seek refuge in Him from Hell-Fire, for I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: In this community there will be some people who will exceed the limits in purification as well as in supplication.