صحیح مسلم
7. کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان
13. باب: نماز چاشت کا استحباب ‘یہ کم از کم دو رکعتیں ‘مکمل آٹھ رکعتیں اور درمیانی صورت چار یا چھ رکعتیں ہیں‘نیز اس نماز کی پابندی کی تلقین
صحيح مسلم
7. كتاب صلاة المسافرين وقصرها
13. بَابُ اسْتِحْبَابِ صَلَاةِ الضُّحَى، وَأَنَّ أَقَلَّهَا رَكْعَتَانِ، وَأَكْمَلَهَا ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، وَأَوْسَطُهَا أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ، أَوْ سِتٍّ، وَالْحَثُّ عَلَى الْمُحَافَظَةِ عَلَيْهَا
Muslim
7. The Book of Prayer - Travellers
13. Chapter: It is recommended to pray Duha, the least of which is two rak`ah, the best of which is eight, and the average of which is four or six, and encouragement to do so regularly
باب: نماز چاشت کا استحباب ‘یہ کم از کم دو رکعتیں ‘مکمل آٹھ رکعتیں اور درمیانی صورت چار یا چھ رکعتیں ہیں‘نیز اس نماز کی پابندی کی تلقین
)
Muslim:
The Book of Prayer - Travellers
(Chapter: It is recommended to pray Duha, the least of which is two rak`ah, the best of which is eight, and the average of which is four or six, and encouragement to do so regularly)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1692.
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے کبھی ر سول اللہ ﷺ کو (گھر میں قیام کے دوران میں) چاشت کے نفل پڑھتے نہیں دیکھا، جبکہ میں چاشت کی نماز پڑھتی ہوں۔ یہ بات یقینی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی کام کو کرنا پسند فرماتے تھے۔ لیکن اس ڈر سے کہ لوگ (بھی آپ کو دیکھ کر) وہ کام کریں گےاور (ان کی د لچسپی کی بناء پر) وہ کام ان پر فرض کردیا جائے گا،آپ ﷺ اس کام کو چھوڑ دیتے تھے۔
صحیح مسلم کی کتابوں اور ابواب کے عنوان امام مسلمؒ کے اپنے نہیں۔انہوں نے سنن کی ایک عمدہ ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،کتابوں اور ابواب کی تقسیم بعد میں کی گئی فرض نمازوں کے متعدد مسائل پر احادیث لانے کے بعد یہاں امام مسلمؒ نے سفر کی نماز اور متعلقہ مسائل ،مثلاً ،قصر،اور سفر کے علاوہ نمازیں جمع کرنے ،سفر کے دوران میں نوافل اور دیگر سہولتوں کے بارے میں احادیث لائے ہیں۔امام نوویؒ نے یہاں اس حوالے سے کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا کا عنوان باندھ دیا ہے۔ان مسائل کے بعد امام مسلم ؒ نے امام کی اقتداء اور اس کے بعد نفل نمازوں کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔آخر میں بڑا حصہ رات کےنوافل۔(تہجد) سے متعلق مسائل کے لئے وقف کیا ہے۔ان سب کے عنوان ابواب کی صورت میں ہیں۔ا س سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب صلااۃ المسافرین وقصرھا مستقل کتاب نہیں بلکہ ذیلی کتاب ہے۔اصل کتاب صلاۃ ہی ہے جو اس ذیلی کتاب ہے کے ختم ہونے کے بہت بعد اختتام پزیر ہوتی ہے۔یہ وجہ ہے کہ بعض متاخرین نے اپنی شروح میں اس زیلی کتاب کو اصل کتاب الصلاۃ میں ہی ضم کردیا ہے۔
کتاب الصلاۃ کے اس حصے میں ان سہولتوں کا ذکر ہے۔جو اللہ کی طرف سے پہلے حالت جنگ میں عطا کی گئیں اور بعد میں ان کو تمام مسافروں کےلئے تمام کردیا گیا۔تحیۃ المسجد،چاشت کی نماز ،فرض نمازوں کے ساتھ ادا کئے جانے والے نوافل کے علاوہ رات کی نماز میں ر ب تعالیٰ کے ساتھ مناجات کی لذتوں،ان گھڑیوں میں مناجات کرنے والے بندوں کے لئے اللہ کے قرب اور اس کی بے پناہ رحمت ومغفرت کے دروازے کھل جانے اور رسول اللہ ﷺ کی خوبصورت دعاؤں کا روح پرورتذکرہ،پڑھنے والے کے ایمان میں اضافہ کردیتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے کبھی ر سول اللہ ﷺ کو (گھر میں قیام کے دوران میں) چاشت کے نفل پڑھتے نہیں دیکھا، جبکہ میں چاشت کی نماز پڑھتی ہوں۔ یہ بات یقینی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی کام کو کرنا پسند فرماتے تھے۔ لیکن اس ڈر سے کہ لوگ (بھی آپ کو دیکھ کر) وہ کام کریں گےاور (ان کی د لچسپی کی بناء پر) وہ کام ان پر فرض کردیا جائے گا،آپ ﷺ اس کام کو چھوڑ دیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو چاشت کے نفل پڑھتے نہیں دیکھا اور میں چاشت کی نماز پڑھتی ہوں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کسی کام کو کرنا پسند فرماتے تھے، لیکن اس ڈر سے اسے نہیں کرتے تھے کہ لوگ بھی (آپ ﷺ کو دیکھ کر) وہ کام کریں گے اور وہ (ان کی دلچسپی کی بنا پر) ان پر فرض قرار دے دیا جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے مشاہدہ اور رؤیت کی نفی کی ہے مطلقاً چاشت پڑھنے کا انکار نہیں کیا۔ اس لیے آپﷺ کےنہ پڑھنے کی توجیہ ایسی کی ہے جس کے دوام و ہمیشگی اور دوسروں کے سامنے پڑھنے کی نفی ہوتی ہے اس لیے ایک گروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس روایت کی بنا پر اور بعض دوسری روایات کی بنا پر چاشت کی نماز نہ پڑھنے کو ترجیح دی ہے اور دوسرے گروہ نے آپﷺ کے پڑھنے کی رویات کی بنا پر پڑھنے کو ترجیح دی ہے اور تیسری جماعت نے کبھی کبھار پڑھنے کو ترجیح دی اور حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے کسی سبب کی بنا پر پڑھنے کو ترجیح دی ہے مثلاً سفر سے واپسی فتح و کامیابی کا حصول کسی کی زیارت و ملاقات کرنے کی صورت میں اس وقت مسجد میں جانے کی بنا پر شکرانہ کے طور پر یا جو کسی دن ضرورت کی بنا پر رات کو تہجد نہ پڑھ سکا تو وہ پڑھ لے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Urwa reported 'A'isha to be saying: I have never seen the Messenger of Allah (ﷺ) observing the supererogatory prayer of the forenoon, but I observed it. And if the Messenger of Allah (ﷺ) abandoned any act which he in fact loved to do, it was out of fear that if the people practiced it constantly, it might become obligatory for them.