صحیح مسلم
7. کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان
13. باب: نماز چاشت کا استحباب ‘یہ کم از کم دو رکعتیں ‘مکمل آٹھ رکعتیں اور درمیانی صورت چار یا چھ رکعتیں ہیں‘نیز اس نماز کی پابندی کی تلقین
صحيح مسلم
7. كتاب صلاة المسافرين وقصرها
13. بَابُ اسْتِحْبَابِ صَلَاةِ الضُّحَى، وَأَنَّ أَقَلَّهَا رَكْعَتَانِ، وَأَكْمَلَهَا ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، وَأَوْسَطُهَا أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ، أَوْ سِتٍّ، وَالْحَثُّ عَلَى الْمُحَافَظَةِ عَلَيْهَا
Muslim
7. The Book of Prayer - Travellers
13. Chapter: It is recommended to pray Duha, the least of which is two rak`ah, the best of which is eight, and the average of which is four or six, and encouragement to do so regularly
باب: نماز چاشت کا استحباب ‘یہ کم از کم دو رکعتیں ‘مکمل آٹھ رکعتیں اور درمیانی صورت چار یا چھ رکعتیں ہیں‘نیز اس نماز کی پابندی کی تلقین
)
Muslim:
The Book of Prayer - Travellers
(Chapter: It is recommended to pray Duha, the least of which is two rak`ah, the best of which is eight, and the average of which is four or six, and encouragement to do so regularly)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1698.
حرملہ بن یحیٰٰ اور محمد بن سلمہ مرادی دونوں نے مجھے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبداللہ بن وہب نے خبر دی، انھوں نے کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے عبداللہ بن حارث کے بیٹے نے حدیث سنائی کہ ان کے والد عبداللہ بن حارث بن نوفل نے کہا: میں نے (سب سے) پوچھا اور میری یہ شدید خواہش تھی کہ مجھے کوئی ایک شخص مل جائے جو مجھے بتائے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاشت کی نماز پڑھی ہے۔ مجھے ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوا کوئی نہ ملا جو مجھے یہ بتاتا۔ انھوں نے مجھے خبر دی کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ دن بلند ہونے کے بعد تشریف لائے، ایک کپڑا لا کر آپﷺ کو پردہ مہیا کیا گیا، آپﷺ نے غسل فرمایا، پھر آپﷺ کھڑے ہوئے اور آٹھ رکعتیں پڑھیں۔ میں نہیں جانتی کہ ان میں آپﷺ کا قیام (نسبتاً) زیادہ لمبا تھا یا آپﷺ کا رکوع یا آپﷺ کا سجود یہ سب (ارکان) قریب قریب تھے اور انھوں نے (ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے بتایا، میں نے ا س سے پہلے اور اس کے بعد آپﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپﷺ نے یہ نماز پڑھی ہو۔ (محمد بن مسلمہ) مرادی نے اپنی روایت میں ’’یونس سے روایت ہے‘‘ کہا، ’’مجھے یونس نے خبر دی‘‘ نہیں کہا۔
صحیح مسلم کی کتابوں اور ابواب کے عنوان امام مسلمؒ کے اپنے نہیں۔انہوں نے سنن کی ایک عمدہ ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،کتابوں اور ابواب کی تقسیم بعد میں کی گئی فرض نمازوں کے متعدد مسائل پر احادیث لانے کے بعد یہاں امام مسلمؒ نے سفر کی نماز اور متعلقہ مسائل ،مثلاً ،قصر،اور سفر کے علاوہ نمازیں جمع کرنے ،سفر کے دوران میں نوافل اور دیگر سہولتوں کے بارے میں احادیث لائے ہیں۔امام نوویؒ نے یہاں اس حوالے سے کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا کا عنوان باندھ دیا ہے۔ان مسائل کے بعد امام مسلم ؒ نے امام کی اقتداء اور اس کے بعد نفل نمازوں کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔آخر میں بڑا حصہ رات کےنوافل۔(تہجد) سے متعلق مسائل کے لئے وقف کیا ہے۔ان سب کے عنوان ابواب کی صورت میں ہیں۔ا س سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب صلااۃ المسافرین وقصرھا مستقل کتاب نہیں بلکہ ذیلی کتاب ہے۔اصل کتاب صلاۃ ہی ہے جو اس ذیلی کتاب ہے کے ختم ہونے کے بہت بعد اختتام پزیر ہوتی ہے۔یہ وجہ ہے کہ بعض متاخرین نے اپنی شروح میں اس زیلی کتاب کو اصل کتاب الصلاۃ میں ہی ضم کردیا ہے۔
کتاب الصلاۃ کے اس حصے میں ان سہولتوں کا ذکر ہے۔جو اللہ کی طرف سے پہلے حالت جنگ میں عطا کی گئیں اور بعد میں ان کو تمام مسافروں کےلئے تمام کردیا گیا۔تحیۃ المسجد،چاشت کی نماز ،فرض نمازوں کے ساتھ ادا کئے جانے والے نوافل کے علاوہ رات کی نماز میں ر ب تعالیٰ کے ساتھ مناجات کی لذتوں،ان گھڑیوں میں مناجات کرنے والے بندوں کے لئے اللہ کے قرب اور اس کی بے پناہ رحمت ومغفرت کے دروازے کھل جانے اور رسول اللہ ﷺ کی خوبصورت دعاؤں کا روح پرورتذکرہ،پڑھنے والے کے ایمان میں اضافہ کردیتا ہے۔
حرملہ بن یحیٰٰ اور محمد بن سلمہ مرادی دونوں نے مجھے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبداللہ بن وہب نے خبر دی، انھوں نے کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے عبداللہ بن حارث کے بیٹے نے حدیث سنائی کہ ان کے والد عبداللہ بن حارث بن نوفل نے کہا: میں نے (سب سے) پوچھا اور میری یہ شدید خواہش تھی کہ مجھے کوئی ایک شخص مل جائے جو مجھے بتائے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاشت کی نماز پڑھی ہے۔ مجھے ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوا کوئی نہ ملا جو مجھے یہ بتاتا۔ انھوں نے مجھے خبر دی کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ دن بلند ہونے کے بعد تشریف لائے، ایک کپڑا لا کر آپﷺ کو پردہ مہیا کیا گیا، آپﷺ نے غسل فرمایا، پھر آپﷺ کھڑے ہوئے اور آٹھ رکعتیں پڑھیں۔ میں نہیں جانتی کہ ان میں آپﷺ کا قیام (نسبتاً) زیادہ لمبا تھا یا آپﷺ کا رکوع یا آپﷺ کا سجود یہ سب (ارکان) قریب قریب تھے اور انھوں نے (ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے بتایا، میں نے ا س سے پہلے اور اس کے بعد آپﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپﷺ نے یہ نماز پڑھی ہو۔ (محمد بن مسلمہ) مرادی نے اپنی روایت میں ’’یونس سے روایت ہے‘‘ کہا، ’’مجھے یونس نے خبر دی‘‘ نہیں کہا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں میں نے پوچھا اور میری یہ آرزو اور خواہش تھی کہ مجھے کوئی ایسا شخص مل جائے جو مجھے بتائے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاشت کی نماز پڑھی ہے تو مجھے ام ہانی کے سوا کوئی نہ ملا جو مجھے یہ بتاتا۔ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے خبر دی کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ دن بلند ہونے کے بعد آئے تو کپڑا لا کر آپﷺ کو پردہ مہیا کیا گیا تو آپﷺ نے غسل فرمایا۔ پھر آپﷺ اٹھے اور آٹھ رکعات پڑھیں، میں نہیں جانتی کہ ان میں آپﷺ کا قیام طویل تھا یا آپﷺ رکوع یا سجدہ یہ سب ارکان قریب قریب تھے اور ام ہانی نے بتایا میں نے اس سے پہلے اور اس کے بعد آپﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ راوی نے اپنی روایت میں اَخْبَرَنِیْ یونس کی جگہ عَنْ یُوْنُسُ کہا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
یہ ان لوگوں کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ اُم ہانی کے گھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کے شکرانہ کے طور پر چاشت کی نماز پڑھی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin Harith bin Naufal reported: I had been asking about, as I was desirous to find one among people who should inform me, whether the Messenger of Allah (ﷺ) observed the forenoon prayer, but I found none to narrate that to me except Umm Hani, daughter of Abu Talib (the real sister of Hadrat 'Ali), who told me that on the day of the Conquest the Messenger of Allah (ﷺ) came (to our house) after the dawn had (sufficiently) arisen. A cloth was brought and privacy was provided for him (the Holy Prophet). He took a bath and then stood up and observed eight rak'ahs. I do not know whether his Qiyam (standing posture) was longer, or bending or prostration or all of them were of equal duration. She (Umm Hani) further said: I never saw him saying this Nafl prayer prior to it or subsequently. (Al-Muradi narrated on the authority of Yunus that he made no mention of the words: "He informed me." )