قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ فَتْحِ مَكَّةَ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1780.02. حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ رَبَاحٍ، قَالَ: وَفَدْنَا إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، وَفِينَا أَبُو هُرَيْرَةَ، فَكَانَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا يَصْنَعُ طَعَامًا يَوْمًا لِأَصْحَابِهِ، فَكَانَتْ نَوْبَتِي، فَقُلْتُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، الْيَوْمُ نَوْبَتِي، فَجَاءُوا إِلَى الْمَنْزِلِ وَلَمْ يُدْرِكْ طَعَامُنَا، فَقُلْتُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، لَوْ حَدَّثْتَنَا عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يُدْرِكَ طَعَامُنَا، فَقَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَجَعَلَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْيُمْنَى، وَجَعَلَ الزُّبَيْرَ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْيُسْرَى، وَجَعَلَ أَبَا عُبَيْدَةَ عَلَى الْبَيَاذِقَةِ، وَبَطْنِ الْوَادِي، فَقَالَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، ادْعُ لِي الْأَنْصَارَ»، فَدَعَوْتُهُمْ، فَجَاءُوا يُهَرْوِلُونَ، فَقَالَ: «يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، هَلْ تَرَوْنَ أَوْبَاشَ قُرَيْشٍ؟» قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: «انْظُرُوا، إِذَا لَقِيتُمُوهُمْ غَدًا أَنْ تَحْصُدُوهُمْ حَصْدًا»، وَأَخْفَى بِيَدِهِ وَوَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ، وَقَالَ: «مَوْعِدُكُمُ الصَّفَا»، قَالَ: فَمَا أَشْرَفَ يَوْمَئِذٍ لَهُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَنَامُوهُ، قَالَ: وَصَعِدَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّفَا، وَجَاءَتِ الْأَنْصَارُ فَأَطَافُوا بِالصَّفَا، فَجَاءَ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أُبِيدَتْ خَضْرَاءُ قُرَيْشٍ لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَلْقَى السِّلَاحَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابهُ فَهُوَ آمِنٌ»، فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: أَمَّا الرَّجُلُ فَقَدْ أَخَذَتْهُ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ، وَرَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، وَنَزَلَ الْوَحْيُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قُلْتُمْ: أَمَّا الرَّجُلُ فَقَدْ أَخَذَتْهُ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ، وَرَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، أَلَا فَمَا اسْمِي إِذًا؟ - ثَلَاثَ مَرَّاتٍ - أَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ، هَاجَرْتُ إِلَى اللهِ وَإِلَيْكُمْ، فَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ، وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ " قَالُوا: وَاللهِ، مَا قُلْنَا إِلَّا ضَنًّا بِاللهِ وَرَسُولِهِ، قَالَ: «فَإِنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ يُصَدِّقَانِكُمْ وَيَعْذِرَانِكُمْ

مترجم:

1780.02.

ہمیں حماد بن سلمہ نے حدیث بیان کی، (کہا: ) ہمیں ثابت نے عبداللہ بن رباح سے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم بطور وفد حضرت معاویہ بن ابی رضی اللہ تعالی عنہ سفیان کے پاس گئے، اور ہم لوگوں میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے، ہم میں سے ہر آدمی ایک دن اپنے ساتھیوں کے لیے کھانا بناتا، ایک دن میری باری تھی، میں نے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ! آج میری باری ہے، وہ سب میرے ٹھکانے پر آئے اور ابھی کھانا نہیں آیا تھا۔ میں نے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ! کاش آپ ہمیں رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث سنائیں یہاں تک کہ کھانا آ جائے۔ انہوں نے کہا: ہم فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ نے خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو دائیں بازو (میمنہ) پر (امیر) مقرر کیا اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو بائیں بازو (میسرہ) پر اور ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کو پیادوں پر اور وادی کے اندر (کے راستے) پر تعینات کیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ابوہریرہ! انصار کو بلاؤ۔‘‘ میں نے ان کو بلایا، وہ دوڑتے ہوئے آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’انصار کے لوگو! کیا تم قریش کے اوباشوں کو دیکھ رہے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’دیکھو! کل جب تمہارا ان سے سامنا ہو تو ان کو اس طرح کاٹ دینا جس طرح فصل کاٹی جاتی ہے۔‘‘ اور آپ ﷺ نے پوشیدہ رکھتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا اور داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا۔ اور فرمایا: ’’اب تم سے ملاقات کا وعدہ کوہِ صفا پر ہے۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: تو اس روز جس کسی نے سر اٹھایا، انہوں نے اس کو سلا دیا، (یعنی مار ڈالا۔) رسول اللہ ﷺ صفا پہاڑ پر چڑھے، انصار آئے، انہوں نے صفا کو گھیر لیا، اتنے میں ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ آئے اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! قریش کی جمعیت مٹا دی گئی، آج سے قریش نہ رہے۔ ابوسفیان ؓ نے کہا: تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو کوئی ابوسفیان کے گھر میں چلا گیا اس کو امن ہے اور جو ہتھیار ڈال دے اس کو بھی امن ہے اور جو اپنا دروازہ بند کے لے اس کو بھی امن ہے۔‘‘ انصار نے کہا: آپﷺ پر اپنے عزیزوں کی محبت اور اپنے شہر کی الفت غالب آ گئی ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگوں نے کہا: مجھ پر کنبے والوں کی محبت اور اپنے شہر کی الفت غالب آ گئی ہے، دیکھو! پھر ( اس صورت میں) میرا نام کیا ہو گا؟‘‘ آپﷺ نے تین بار فرمایا: ۔۔ ’’میں محمد اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے اللہ کے لیے تمہاری طرف ہجرت کی، تو اب زندگی تمہاری زندگی (کے ساتھ) ہے اور موت تمہاری موت (کے ساتھ) ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی شدید چاہت (اور آپ کی معیت سے محرومی کے خوف) کے علاوہ کسی وجہ سے نہیں کہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو اللہ اور اس کا رسول دونوں تم کو سچا جانتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔‘‘