قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: شمائل

صحيح مسلم: كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابٌ فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ ﷺ إِلَى اللهِ، وَصَبْرِهِ عَلَى أَذَى الْمُنَافِقِينَ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1798. حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ حِمَارًا عَلَيْهِ إِكَافٌ تَحْتَهُ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ، وَأَرْدَفَ وَرَاءَهُ أُسَامَةَ وَهُوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، وَذَاكَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، حَتَّى مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَالْمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ، وَالْيَهُودِ، فِيهِمْ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَيٍّ، وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا غَشِيَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ، خَمَّرَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: لَا تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَقَفَ، فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللهِ، وَقَرَأَ عَلَيْهِمِ الْقُرْآنَ، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَيٍّ: أَيُّهَا الْمَرْءُ، لَا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا، فَلَا تُؤْذِنَا فِي مَجَالِسِنَا وَارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ، فَمَنْ جَاءَكَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَيْهِ، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ: اغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا، فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ، قَالَ: فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا، فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ، ثُمَّ رَكِبَ دَابَّتَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ: " أَيْ سَعْدُ، أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَى مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ؟ - يُرِيدُ عَبْدَ اللهِ بْنَ أُبَيٍّ - قَالَ: كَذَا وَكَذَا "، قَالَ: اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللهِ، وَاصْفَحْ، فَوَاللهِ، لَقَدْ أَعْطَاكَ اللهُ الَّذِي أَعْطَاكَ، وَلَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُوهُ بِالْعِصَابَةِ، فَلَمَّا رَدَّ اللهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَهُ، شَرِقَ بِذَلِكَ، فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ، فَعَفَا عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مترجم:

1798.

معمر نے زہری سے، انہوں نے عروہ (بن زبیر) سے خبر دی کہ اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں بتایا کہ (ایک بار) رسول اللہ ﷺ نے ایک گدھے پر سواری فرمائی، اس پر پالان تھا اور اس کے نیچے فدک کی بنی ہوئی ایک چادر تھی، آپﷺ نے اسامہ (بن زید رضی اللہ تعالی عنہ) کو پیچھے بٹھایا ہوا تھا، آپ قبیلہ بنو حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی عیادت کرنا چاہتے تھے۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے، آپ راستے میں ایک مجلس سے گزرے جہاں مسلمان، بت پرست اور مشرک اور یہودی ملے جلے موجود تھے، ان میں عبداللہ بن اُبی بھی تھا اور مجلس میں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی موجود تھے۔ جب سواری کی گرد مجلس کی طرف اٹھی تو عبداللہ بن اُبی نے چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا: ہم پر گرد نہ اڑائیں۔ نبی ﷺ نے ان سب کو سلام کیا، رگ گئے، پھر آپﷺ سواری سے اترے، ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور ان پر قرآن مجید کی تلاوت کی۔ عبداللہ بن اُبی نے کہا: اے شخص! اس سے اچھی بات اور کوئی نہیں ہو گی کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں اگر وہ سچ ہے تو بھی ہماری مجلسوں میں آ کر ہمیں تکلیف نہ پہنچائیں اور اپنے گھر لوٹ جائیں اور ہم میں سے جو شخص آپ کے پاس آئے اس کو سنائیں۔۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: آپ ہماری مجلس میں تشریف لائیں۔ ہم اس کو پسند کرتے ہیں، پھر مسلمان، یہود اور بت پرست ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے، یہاں تک کہ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑنے پر تیار ہو گئے۔ نبی ﷺ ان کو مسلسل دھی کرتے رہے، پھر آپﷺ اپنی سواری پر بیٹھے، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے اور فرمایا: ’’سعد! آپ نے نہیں سنا کہ ابوحباب نے کیا کہا ہے؟‘‘ آپ کی مراد عبداللہ بن اُبی سے تھی، اس نے اس، اس طرح کہا ہے۔ (حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: یا رسول اللہ! اس کو معاف کر دیجئے اور اس سے درگزر کیجیے۔ بےشک اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو جو عطا کیا ہے سو کیا ہے۔ اس نشیبی نخلستانی علاقے میں بسنے والوں نے مل جل کر یہ طے کر لیا تھا کہ اس کو (بادشاہت کا) تاج پہنائیں گے اور اس کے سر پر (ریاست کا) عمامہ باندھیں گے، پھر جب اللہ تعالیٰ نے، اس حق کے ذریعے جو آپﷺ کو عطا فرمایا ہے، اس (فیصلے) کو رد کر دیا تو اس بنا پر اس کو حلق میں پھندا لگ گیا اور آپ نے جو دیکھا ہے اس نے اسی بنا پر کیا ہے۔ سو نبی ﷺ نے اسے معاف کر دیا۔