قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ غَزْوَةِ خَيْبَرَ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1802. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ عَبَّادٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، مَوْلَى سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَتَسَيَّرْنَا لَيْلًا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرِ بْنِ الْأَكْوَعِ: أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ، وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا، فَنَزَلَ يَحْدُو بِالْقَوْمِ، يَقُولُ اللهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَاغْفِرْ فِدَاءً لَكَ مَا اقْتَفَيْنَا، وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا، وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا، إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَتَيْنَا، وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ هَذَا السَّائِقُ؟» قَالُوا: عَامِرٌ، قَالَ: «يَرْحَمُهُ اللهُ»، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَجَبَتْ يَا رَسُولَ اللهِ، لَوْلَا أَمْتَعْتَنَا بِهِ، قَالَ: فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ، فَحَاصَرْنَاهُمْ حَتَّى أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ اللهَ فَتَحَهَا عَلَيْكُمْ»، قَالَ: فَلَمَّا أَمْسَى النَّاسُ مَسَاءَ الْيَوْمِ الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ، أَوْقَدُوا نِيرَانًا كَثِيرَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا هَذِهِ النِّيرَانُ؟ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ؟» فَقَالُوا: عَلَى لَحْمٍ، قَالَ: «أَيُّ لَحْمٍ؟» قَالُوا: لَحْمُ حُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَهْرِيقُوهَا، وَاكْسِرُوهَا»، فَقَالَ رَجُلٌ: أَوْ يُهْرِيقُوهَا وَيَغْسِلُوهَا؟ فَقَالَ: «أَوْ ذَاكَ»، قَالَ: فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ فِيهِ قِصَرٌ، فَتَنَاوَلَ بِهِ سَاقَ يَهُودِيٍّ لِيَضْرِبَهُ، وَيَرْجِعُ ذُبَابُ سَيْفِهِ، فَأَصَابَ رُكْبَةَ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ، قَالَ: فَلَمَّا قَفَلُوا، قَالَ سَلَمَةُ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي: قَالَ: فَلَمَّا رَآنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاكِتًا، قَالَ: «مَا لَكَ؟» قُلْتُ لَهُ: فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، قَالَ: «مَنْ قَالَهُ؟» قُلْتُ: فُلَانٌ وَفُلَانٌ وَأُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: «كَذَبَ مَنْ قَالَهُ، إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ» وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ، «إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ قَلَّ عَرَبِيٌّ مَشَى بِهَا مِثْلَهُ»، وَخَالَفَ قُتَيْبَةُ مُحَمَّدًا فِي الْحَدِيثِ فِي حَرْفَيْنِ، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عَبَّادٍ: وَأَلْقِ سَكِينَةً عَلَيْنَا

مترجم:

1802.

قتیبہ بن سعید اور محمد بن عباد نے ۔۔ الفاظ ابن عباد کے ہیں ۔۔ ہمیں حدیث بیان کی، ان دونوں نے کہا: ہمیں حاتم بن اسماعیل نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی  عنہ کے آزاد کردہ غلام یزید بن ابی عبید سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی  عنہ سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو ہم نے رات کے وقت سفر کیا، لوگوں میں سے ایک آدمی نے عامر بن اکوع رضی اللہ تعالی  عنہ سے کہا: کیا تم ہمیں اپنے نادر جنگی اشعار سے نہیں سناؤ گے؟ اور عامر رضی اللہ تعالی  عنہ شاعر آدمی تھے، وہ اتر کر لوگوں کے (اونٹوں) کے لیے حدی خوانی کرنے لگے، وہ کہہ رہے تھے: ’’اے اللہ! اگر تو (فضل و کرم کرنے والا) نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے، ہم تیرے نام پر قربان، ہم نے جو گناہ کیے ان کو بخش دے اور اگر ہمارا مقابلہ ہو تو ہمارے قدم جما دے اور ہم پر ضرور بالضرور سکینت اور وقار نازل فرما۔ ہمیں جب بھی آواز دے کر بلایا گیا ہم آئے، ہمیں آواز دے کر ان (آواز دینے والے) لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا (اور ہم اس پر پورے اترے۔)‘‘ تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ’’یہ (حدی خوانی کر کے) اونٹوں کو ہانکنے والا کون ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: عامر۔ آپ ﷺ نے (اللہ سے اس کی محبت اور شوق کو دیکھتے ہوئے) فرمایا: ’’اللہ اس پر رحم کرے!‘‘ لوگوں میں سے ایک آدمی (حضرت عمر رضی اللہ تعالی  عنہ) نے کہا: (اس کے لیے شہادت) واجب ہو گئی، اے اللہ کے رسولﷺ! آپ نے (اس کے حق میں دعا مؤخر فرما کر) ہمیں اس (کی صحبت) سے زیادہ مدت فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا؟ (سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی  عنہ نے) کہا: ہم خیبر پہنچے تو ہم نے ان کا محاصرہ کر لیا یہاں تک کہ ہمیں (شدید بھوک کے) مخمصے نے آ لیا، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ نے اسے ان (جہاد کرنے والے) لوگوں کے لیے فتح کر دیا ہے۔‘‘ جب لوگوں نے اس دن کی شام کی جب انہیں فتح عطا کی گئی تھی تو انہوں نے بہت سی (جگہوں پر) آگ جلائی۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ’’یہ آگ کیسی ہے اور یہ لوگ کس چیز (کو پکانے) کے لیے اسے جلا رہے ہیں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: گوشت (کو پکانے) کے لیے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ’’کون سا گوشت؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: پالتو گدھوں کا گوشت۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے (پانی سمیت) بہا دو اور ان (برتنوں) کو توڑ دو۔‘‘ اس پر ایک آدمی نے کہا: یا اسے بہا دیں اور برتن دھو لیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یا ایسے کر لو۔‘‘ کہا: جب لوگوں نے مل کر صف بندی کی تو عامر رضی اللہ تعالی  عنہ کی تلوار چھوٹی تھی، انہوں نے مارنے کے لیے اس (تلوار) سے ایک یہودی کی پنڈلی کو نشانہ بنایا تو تلوار کی دھار لوٹ کر عامر رضی اللہ تعالی  عنہ کے گھٹنے پر آ لگی اور وہ اسی زخم سے فوت ہو گئے۔ جب لوگ واپس ہوئے، سلمہ رضی اللہ تعالی  عنہ نے کہا: اور اس وقت انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، کہا: جب رسول اللہ ﷺ نے مجھے خاموش دیکھا تو آپ نے پوچھا: ’’تمہیں کیا ہوا ہے؟‘‘ میں نے آپ سے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان! لوگوں کا خیال ہے کہ عامر رضی اللہ تعالی  عنہ کا عمل ضائع ہو گیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کس نے کہا ہے؟‘‘ میں نے کہا: فلاں، فلاں اور اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ تعالی  عنہ نے۔ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’جس نے بھی یہ کہا، غلط کہا ہے، اس کے لیے تو یقینا دو اجر ہیں۔‘‘ آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو اکٹھا کیا۔ ’’وہ تو خود جم کر جہاد کرنے والے مجاہد تھے، کم ہی کوئی عربی ہو گا جو اس راستے پر ان کی طرح چلا ہو گا۔‘‘ قتیبہ نے حدیث کے دو حرفوں (القين کے آخری دو حرفوں ی اور ن) میں محمد (بن عباد) کی مخالفت کی ہے اور (محمد) بن عباد کی روایت میں (القين کے بجائے) الق (ضرور بالضرور کی تاکید کے بغیر محض) ’’نازل کر‘‘ کے الفاظ ہیں۔