صحیح مسلم
7. کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان
24. باب: رات کے آخری حصے میں دعا اور یا د الہی کی ترغیب ‘اور اس وقت ان کی قبولیت
صحيح مسلم
7. كتاب صلاة المسافرين وقصرها
24. بَابُ التَّرْغِيبِ فِي الدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ فِي آخِرِ اللَّيْلِ، وَالْإِجَابَةِ فِيهِ
Muslim
7. The Book of Prayer - Travellers
24. Chapter: Encouragement to supplicate and recite statements of remembrance at the end of the night, and the response to that
باب: رات کے آخری حصے میں دعا اور یا د الہی کی ترغیب ‘اور اس وقت ان کی قبولیت
)
Muslim:
The Book of Prayer - Travellers
(Chapter: Encouragement to supplicate and recite statements of remembrance at the end of the night, and the response to that)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1812.
شعبہ نے ابو اسحاق سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث بیان کی، البتہ منصور کی روایت مکمل اور زیادہ (تفصیلات پر محیط) ہے۔
صحیح مسلم کی کتابوں اور ابواب کے عنوان امام مسلمؒ کے اپنے نہیں۔انہوں نے سنن کی ایک عمدہ ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،کتابوں اور ابواب کی تقسیم بعد میں کی گئی فرض نمازوں کے متعدد مسائل پر احادیث لانے کے بعد یہاں امام مسلمؒ نے سفر کی نماز اور متعلقہ مسائل ،مثلاً ،قصر،اور سفر کے علاوہ نمازیں جمع کرنے ،سفر کے دوران میں نوافل اور دیگر سہولتوں کے بارے میں احادیث لائے ہیں۔امام نوویؒ نے یہاں اس حوالے سے کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا کا عنوان باندھ دیا ہے۔ان مسائل کے بعد امام مسلم ؒ نے امام کی اقتداء اور اس کے بعد نفل نمازوں کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔آخر میں بڑا حصہ رات کےنوافل۔(تہجد) سے متعلق مسائل کے لئے وقف کیا ہے۔ان سب کے عنوان ابواب کی صورت میں ہیں۔ا س سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب صلااۃ المسافرین وقصرھا مستقل کتاب نہیں بلکہ ذیلی کتاب ہے۔اصل کتاب صلاۃ ہی ہے جو اس ذیلی کتاب ہے کے ختم ہونے کے بہت بعد اختتام پزیر ہوتی ہے۔یہ وجہ ہے کہ بعض متاخرین نے اپنی شروح میں اس زیلی کتاب کو اصل کتاب الصلاۃ میں ہی ضم کردیا ہے۔
کتاب الصلاۃ کے اس حصے میں ان سہولتوں کا ذکر ہے۔جو اللہ کی طرف سے پہلے حالت جنگ میں عطا کی گئیں اور بعد میں ان کو تمام مسافروں کےلئے تمام کردیا گیا۔تحیۃ المسجد،چاشت کی نماز ،فرض نمازوں کے ساتھ ادا کئے جانے والے نوافل کے علاوہ رات کی نماز میں ر ب تعالیٰ کے ساتھ مناجات کی لذتوں،ان گھڑیوں میں مناجات کرنے والے بندوں کے لئے اللہ کے قرب اور اس کی بے پناہ رحمت ومغفرت کے دروازے کھل جانے اور رسول اللہ ﷺ کی خوبصورت دعاؤں کا روح پرورتذکرہ،پڑھنے والے کے ایمان میں اضافہ کردیتا ہے۔
شعبہ نے ابو اسحاق سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث بیان کی، البتہ منصور کی روایت مکمل اور زیادہ (تفصیلات پر محیط) ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
یہی حدیث مصنف ایک اور سند سے نقل کرتے ہیں، لیکن مذکورہ بالا روایت مکمل اور مفصل ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
1۔ مذکورہ بالا روایت میں اللہ تعالیٰ کے آسمان دنیا پر نازل ہونے کا تذکرہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا اترنا یا نازل ہونا اس کی دوسری صفات کی طرف ایک فعلی صفت ہے۔ جس طرح اس کی ذات کی حقیقت اور کیفیت کو جاننا ممکن نہیں ہے لیکن یہ طے ہے کہ وہ خالق ہے اس لیے اس کی ذات بھی اس کی شان کے مطابق ہے مخلوق کی طرح نہیں ہے اسی طرح تمام صفات ذاتی ہوں یا فعلی ان کی کیفیت اورحقیقت کو جاننا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ اور اس کی صفات اس کی شانِ خالقیت کے مطابق ہیں مخلوق کی صفات کے مشابہ اور مماثل نہیں ہیں۔ اور ان پر بلا کیف ایمان لانا تمام سلف امت صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ، ائمہ دین فقہاء اورمحدثین کا عقید ہ ہے۔ اس لیے یہ تاویل کرنا کہ وہ متوجہ ہوتا ہے۔ یا اس کی رحمت اترتی ہے یا اس کے فرشتے اترتے ہیں یہ پہلے اس کی صفات کو مخلوق کی صفات پر قیاس کرنا ہے اورپھر ان کا انکار کرنا ہے اگر اس کی صفات کو اس کے شایان شان مانا جائے، ان کی کسی کیفیت یا شکل کا تعین نہ کیا جائے تو صفات کےانکار کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ہے۔ کیا رحمت یا فرشتہ یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے مانگو، میں دوں، مجھے پکارو، میں دعا قبول کروں یا مجھ سے معافی طلب کرو میں معاف کروں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے نزول کا وقت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی حدیث میں رات کا آخری تہائی ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ پہلی تہائی گزرنے کے بعد اترتا ہے تو ظاہر ہے آخری تہائی پہلی تہائی کے بعد ہی آتی ہے۔ اس لیے تیسری حدیث میں: (شَطْرُ اللَّيْلِ أَوْ ثُلُثَاهُ) ہے اور شَطْرُ کا معنی اہم حصہ بھی ہوتا ہے۔ شَطْرُ اور ثُلُثَاهُ دوتہائی کا معنی ایک ہی ہے کہ وہ تہائی رات گزرنے کے بعد تیسری اور آخری تہائی میں اترتا ہے۔ اس لیے تمام روایات کا مقصد یہی ہے کہ آخری تہائی میں اعلان فرماتا ہے۔ اس لیے الفاظ میں بظاہر تعارض ہے لیکن حقیقتاً تضاد نہیں کہ ترجیح کی ضرورت پیش آئے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ علامہ عراقی اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے آخر تہائی کی روایت کو ترجیح دی ہے۔ 3۔ کون ہے جو ایسی ذات کو قرض دے جو محتاج اور حق مارنے والی نہیں سے مراد اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ وخیرات کرنا ہے اور اس کو قرض سے اسی لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو کئی گناہ بڑھا چڑھا کر بندے کو واپس فرماتا ہے۔ 4۔ ان روایات سے رات کے آخری تہائی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور بندوں کو شوق اوررغبت دلائی گئی ہے کہ وہ اس وقت اٹھ کر اللہ کےحضور اپنی گزارشات پیش کریں۔ اس سے اپنی حاجات مانگیں، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی طلب کریں اور اپنے دامن کو اپنی مرادوں سے بھریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
This hadith is narrated by Ishaq with the same chain of transmitters except this that the hadith transmitted by Mansur (the above one) is more comprehensive and lengthy.