قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ النِّسَاءِ الْغَازِيَاتِ يُرْضَخُ لَهُنَّ وَلَا يُسْهَمُ، وَالنَّهْيِ عَنْ قَتْلِ صِبْيَانِ أَهْلِ الْحَرْبِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1812. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ، أَنَّ نَجْدَةَ، كَتَبَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ، عَنْ خَمْسِ خِلَالٍ، فَقَالَ: ابْنُ عَبَّاسٍ: لَوْلَا أَنْ أَكْتُمَ عِلْمًا مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ، كَتَبَ إِلَيْهِ نَجْدَةُ: أَمَّا بَعْدُ، فَأَخْبِرْنِي هَلْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ؟ وَهَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ؟ وَهَلْ كَانَ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ؟ وَمَتَى يَنْقَضِي يُتْمُ الْيَتِيمِ؟ وَعَنِ الْخُمْسِ لِمَنْ هُوَ؟ فَكَتَبَ إِلَيْهِ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي هَلْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ؟ " وَقَدْ كَانَ يَغْزُو بِهِنَّ، فَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى، وَيُحْذَيْنَ مِنَ الْغَنِيمَةِ، وَأَمَّا بِسَهْمٍ فَلَمْ يَضْرِبْ لَهُنَّ، وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ، فَلَا تَقْتُلِ الصِّبْيَانَ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي مَتَى يَنْقَضِي يُتْمُ الْيَتِيمِ؟ فَلَعَمْرِي، إِنَّ الرَّجُلَ لَتَنْبُتُ لِحْيَتُهُ وَإِنَّهُ لَضَعِيفُ الْأَخْذِ لِنَفْسِهِ، ضَعِيفُ الْعَطَاءِ مِنْهَا، فَإِذَا أَخَذَ لِنَفْسِهِ مِنْ صَالِحِ مَا يَأْخُذُ النَّاسُ فَقَدْ ذَهَبَ عَنْهُ الْيُتْمُ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْخُمْسِ لِمَنْ هُوَ؟ وَإِنَّا كُنَّا نَقُولُ: هُوَ لَنَا، فَأَبَى عَلَيْنَا قَوْمُنَا ذَاكَ

مترجم:

1812.

سلیمان بن بلال نے ہمیں جعفر بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے حدیث بیان کی، انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی کہ (معروف خارجی سردار) نجدہ (بن عامر حنفی) نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے پانچ باتیں دریافت کرنے کے لیے خط لکھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا: اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں علم چھپا رہا ہوں تو میں اسے جواب نہ لکھتا۔ نجدہ نے انہیں لکھا تھا: امابعد! مجھے بتائیے: کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں سے مدد لیتے ہوئے جنگ کرتے تھے؟ کیا آپ غنیمت میں ان کا حصہ رکھتے تھے؟ کیا آپ بچوں کو قتل کرتے تھے؟ اور یہ کہ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ اس نے خمس کے بارے میں (بھی پوچھا کہ) وہ کس کا حق ہے؟ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے اس کی طرف (جواب) لکھا: تم نے مجھ سے دریافت کرنے کے لیے لکھا تھا: کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں سے مدد لیتے ہوئے جنگ کرتے تھے؟ بلاشبہ آپﷺ ان سے جنگ میں مدد لیتے تھے اور وہ زخمیوں کو مرہم لگایا کرتی تھیں اور انہیں غنیمت (کے مال) سے معمولی سا عطیہ دیا جاتا تھا، رہا (غنیمت کا باقاعدہ) حصہ تو وہ آپ نے ان کے لیے نہیں نکالا، اور یقینا رسول اللہ ﷺ بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے، لہٰذا تم بھی بچوں کو قتل نہ کیا کرو۔ اور تم نے مجھ سے دریافت کرنے کے لیے لکھا تھا: یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ مجھے اپنی عمر (کے مالک) کی قسم! کسی آدمی کی داڑھی نکل آتی ہے جبکہ ابھی وہ اپنے لیے حق لینے میں اور اپنی طرف سے حق دینے میں کمزور ہوتا ہے، جب وہ اپنے لیے ٹھیک طرح سے حقوق لے سکے جس طرح لوگ لیتے ہیں تو اس کی یتیمی ختم ہو جائے گی۔ اور تم نے مجھ سے خمس کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے لکھا تھا کہ وہ کس کا حق ہے؟ تو ہم کہتے تھے: وہ ہمارا حق ہے، لیکن ہماری قوم نے ہماری یہ بات ماننے سے انکار کر دیا۔