قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِمَارَةِ (بَابُ الْأَمْرِ بالْوَفَاءِ بِبَيْعَةِ الْخُلَفَاءِ، الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1844. حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا و قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ فَأَتَيْتُهُمْ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَمِنَّا مَنْ يُصْلِحُ خِبَاءَهُ وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ إِذْ نَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَاجْتَمَعْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَاءٌ وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا وَتَجِيءُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ مُهْلِكَتِي ثُمَّ تَنْكَشِفُ وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ هَذِهِ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنْ النَّارِ وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ إِنْ اسْتَطَاعَ فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَقُلْتُ لَهُ أَنْشُدُكَ اللَّهَ آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهْوَى إِلَى أُذُنَيْهِ وَقَلْبِهِ بِيَدَيْهِ وَقَالَ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي فَقُلْتُ لَهُ هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْكُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا وَاللَّهُ يَقُولُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا قَالَ فَسَكَتَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ

مترجم:

1844.

جریر نے ہمیں اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے زید ین وہب یے، انھوں نے عبدالرحمٰن بن عبد رب الکعبہ ورایت بیان کی، کہا:  میں مسجد حرام میں دخل ہوا تو وہاں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں نے ان پر جمگھٹا لگا رکھا تھا میں بھی لوگوں میں آ کر ان کے قریب بیٹھ گیا، تو انہوں (عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ) نے بتایا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، تو ہم نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا، تو ہم میں سے کچھ اپنا خیمہ درست کرنے لگے، اور ہم سے کچھ تیر اندازی میں مشغول ہو گئے اور بعض اپنے چرنے والے مویشیوں کے ساتھ ٹھہر گئے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے آواز دی، نماز تیار ہے، آ جاؤ، تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے اور آپﷺ نے فرمایا: ’’واقعہ یہ ہے، مجھ سے پہلے ہر نبی پر لازم تھا کہ وہ اپنی امت کی رہنمائی ہر اس خیر کی طرف کرے، جو ان کے حق میں جانتا ہو یعنی اپنے علم کے مطابق ہر خیر سے انہیں آگاہ کرے اور ان کو ہر اس شر سے ڈرائے، جو ان کے بارے میں جانتا ہو اور تمہاری اس امت کے پہلے لوگوں میں سلامتی ہے اور اس کے بعد والے لوگوں کو مصائب میں مبتلا ہونا پڑے گا اور ایسی باتیں ہوں گی جن کو تم برا سمجھو گے اور ایسی آزمائشیں آئیں گی جو ایک دوسرے کو ہلکا بنا دیں گی، ایک فتنہ آئے گا اور مومن کہے گا، یہ تو ہلاک کر کے ہی چھوڑے گا، تو جو اس شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اسے آگ سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو اسے اس کی موت اسی حالت میں آنی چاہیے کہ وہ اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرے جو سلوک ان سے اپنے بارے میں چاہتا ہے اور جس نے کسی امام کی بیعت کر لی اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارا اور اپنے دل سے اس سے محبت کی تو جہاں تک اس سے ہو سکے، وہ اس کی اطاعت کرے اور اگر وہ دوسرا شخص اس کے مقابلہ میں آ کھڑا ہو تو دوسرے کی گردن اڑا دو۔‘‘ تو میں ان کے قریب ہوا اور ان سے پوچھا، میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے کانوں اور دل کی طرف اشارہ کر کے کہا، میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے اس کو یاد رکھا، تو میں نے ان سے کہا، یہ تیرا چچا زاد معاویہ ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طریقہ سے کھائیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، ’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقوں سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ تمہاری رضا مندی سے باہمی تجارت (لین دین) ہو اور اپنے آپ کو (ایک دوسرے کو) قتل نہ کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر بہت مہربان ہے۔‘‘ (نساء، آیت نمبر 29) تو وہ کچھ دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے کہ اللہ کی اطاعت کی صورت میں ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی کے معاملے میں ان کی نافرمانی کرو۔