قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْفَضَائِلِ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ الْخَضِرِ عَلَيْهِ السَّلَام)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2380. حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، وَعُبَيْدُ اللهِ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ، كُلُّهُمْ عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ هُوَ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ، عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللهِ، سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " قَامَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ: أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ، قَالَ فَعَتَبَ اللهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، فَأَوْحَى اللهُ إِلَيْهِ: أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ مُوسَى: أَيْ رَبِّ كَيْفَ لِي بِهِ؟ فَقِيلَ لَهُ: احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، فَحَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ، فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ فَتَاهُ، وَهُوَ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ، فَحَمَلَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، حُوتًا فِي مِكْتَلٍ وَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يَمْشِيَانِ حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ، فَرَقَدَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ وَفَتَاهُ، فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ، حَتَّى خَرَجَ مِنَ الْمِكْتَلِ، فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ، قَالَ وَأَمْسَكَ اللهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْمَاءِ حَتَّى كَانَ مِثْلَ الطَّاقِ، فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا، وَكَانَ لِمُوسَى وَفَتَاهُ عَجَبًا، فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتِهِمَا، وَنَسِيَ صَاحِبُ مُوسَى أَنْ يُخْبِرَهُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ لِفَتَاهُ: آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، قَالَ وَلَمْ يَنْصَبْ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا، قَالَ مُوسَى: {ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا} [الكهف: 64]، قَالَ يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا، حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ، فَرَأَى رَجُلًا مُسَجًّى عَلَيْهِ بِثَوْبٍ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى، فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ: أَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ: مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: إِنَّكَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللهِ عَلَّمَكَهُ اللهُ لَا أَعْلَمُهُ، وَأَنَا عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ، قَالَ لَهُ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: (هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا. قَالَ: إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا. وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا. قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا) قَالَ لَهُ الْخَضِرُ {فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا} [الكهف: 70]، قَالَ: نَعَمْ، فَانْطَلَقَ الْخَضِرُ وَمُوسَى يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ، فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ، فَكَلَّمَاهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا، فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا {لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا} [الكهف: 72]، ثُمَّ خَرَجَا مِنَ السَّفِينَةِ، فَبَيْنَمَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ إِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ، فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ، فَقَتَلَهُ، فَقَالَ مُوسَى: (أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاكِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا. قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا) قَالَ: وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنَ الْأُولَى، {قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي، قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا، فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا، فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ} [الكهف: 76]، يَقُولُ مَائِلٌ، قَالَ الْخَضِرُ بِيَدِهِ هَكَذَا فَأَقَامَهُ، قَالَ لَهُ مُوسَى: قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا، لَوْ شِئْتَ لَتَخِذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ، سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا " قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَرْحَمُ اللهُ مُوسَى، لَوَدِدْتُ أَنَّهُ كَانَ صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَخْبَارِهِمَا»، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَانَتِ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا»، قَالَ: " وَجَاءَ عُصْفُورٌ حَتَّى وَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ، ثُمَّ نَقَرَ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ: مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللهِ إِلَّا مِثْلَ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنَ الْبَحْرِ " قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: وَكَانَ يَقْرَأُ: «وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا» وَكَانَ يَقْرَأُ: «وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا»

مترجم:

2380.

عمرو بن محمد ناقد، اسحاق بن ابراہیم حنظلی، عبیداللہ بن سعید اور محمد بن ابی عمر مکی، ان سب نے ہمیں ابن عیینہ سے حدیث بیان کی۔ الفاظ ابن ابی عمر کے ہیں۔ سفیان بن عیینہ نے کہا: ہمیں عمرو بن دینار نے سعید بن جبیر سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: کہ میں نے حضرت ابن عباس  سے کہا: نوف (بن فضالہ) بکالی کا یہ خیال ہے کہ بنواسرائیل کے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی موسیٰ نہیں تھے تو انہوں نے کہا، اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے، میں نے حضرت ابی بن کعب علیہ السلام سے سنا وہ کہتے تھے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا، موسیٰ بنی اسرائیل کوخطاب کرنے کےلیے کھڑے ہوئے تو  ان سے سوال کیا گیا، سب لوگوں سے زیادہ علم والا کون  ہے؟ توانہوں نے کہا، میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: اللہ تعالی ان سے ناراض ہو گیے کیونکہ انہوں نے اس کا علم اللہ کی طرف نہیں  لوٹایا، سو اللہ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ، دو سمندروں کے سنگم پر ہے، جو  تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے، موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، اے میرے رب میں اس تک کیسے رسائی حاصل کروں؟ تو انہیں کہا گیا ایک ٹوکری میں ایک  مچھلی رکھ لو  تو  جہاں تم مچھلی کو گم پاؤ گے، وہ وہیں  ہوں گے تو وہ چل پڑے اور ان کے ساتھ ان  کے خادم یوشع بن نون بھی روانہ ہو  گئے۔ سو موسیٰ علیہ السلام نے ایک ٹوکر ی میں مچھلی اٹھائی اور چل دئیے اور ان کے ساتھ ان کے خادم بھی تھے، دونوں چلتے چلتے ایک چٹان پر پہنچ گئے تو موسی  علیہ السلام اور ان کے ساتھی سو  گئے اور مچھلی ٹوکری میں پھڑ پھڑائی، حتی کہ ٹوکری سے نکل گئی اور سمندر میں  گر گئی، آپ نے فرمایا: اللہ نے اس کے لیے پانی کے بہاؤ  کو روک دیا، حتی کہ وہ ایک طاق کی طرح ہو گیا اور مچھلی کےلیے سرنگ بن گیا اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لیے تعجب انگیز ٹھہرا اور وہ باقی دن اور رات چلتے رہے اور موسیٰ علیہ السلام کا ساتھی، انہیں اس کی خبر دینا بھول گیا تو جب صبح ہوئی، موسی ٰعلیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا، صبح کا کھانا لاؤ، ہمیں اپنے سفر سے بہت تکان لاحق ہو گئی ہے۔ آپ نے فرمایا جب اس مکان سے جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا، گزر نہیں  گئے، انہیں تکان لاحق نہیں ہوئی، ساتھی نے کہا، آپ کو معلوم ہے جب ہم چٹان کے  پاس ٹھہرے، (مچھلی سمندر میں چلی گئی) تومیں آپ کو بتانا بھول گیا، اور اس کا تذکرہ کرنا مجھے شیطان ہی نہیں بھلایا ہے اور اس نے سمندر میں اپنا عجیب طریقہ سے راستہ بنا لیا، موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، ا س جگہ کے ہم متلاشی تھے، پھر وہ دونوں اپنے نقش قدم کا پیچھا کرتے ہوئے لوٹ آئے، حتی کہ اس چٹان کے پاس پہنچ گئے تو موسیٰ علیہ السلام نے ایک آدمی دیکھا، جو اپنے آپ کو کپڑے سے ڈھانپے ہوئے تھا، موسیٰ علیہ السلام نے اسے سلام کہا تو خضر نے ان سے پوچھا اس علاقے میں سلام کہتے والا کہاں سے آ گیا، انہوں نے کہا، میں موسی ہوں، پوچھا، بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ کہا: ہاں، خضر نے کہا، اللہ کے علوم میں ایک علم تمہیں حاصل ہے، جو اللہ نے تجھے ہی سکھایا ہے، میں اس سے آگاہ نہیں ہوں اور اللہ کا علوم میں سے مجھے ایک علم حاصل ہے، جو اس نے مجھے سکھایا ہے، آپ اسے نہیں جانتے، موسیٰ علیہ السلام نے اس سے پوچھا، کیا، میں آپ کے ساتھ اس شرط پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے وہ رشد و ہدایت سکھائیں، جو آپ کو سکھائی گئی ہے تو خضر علیہ السلام نے کہا، آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے اور آپ ایسی چیز پر صبر کیسے کر سکیں گے، جس سے آپ واقف نہیں ہوں گے، موسی علیہ السلام نے کہا، ان شاء اللہ! آپ مجھے صابر پائیں گے، اور میں آپ کی کسی معاملے میں مخالفت نہیں کروں  گا، خضر علیہ السلام نے ان سے کہا، اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو میں آپ مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں  کریں گے، حتی کہ خود میں تمہارے سامنے  اس کا ذکر چھیڑ وں، انہوں نے کہا، ٹھیک ہے تو خضر اور موسی علیہ السلام ساحل سمندر پر چل پڑے اور ان کے پاس سے  ایک کشتی گزری تو انہوں نے کشتی والوں سے کہا، ان دونوں کو بھی سوار کر لیں، انہوں نے خضر کو پہچان کر، ان دونوں کو بغیر کرائے کے سوار کر لیا، حضرت خضر نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختی کا رخ کر کے اس کو اکھاڑ دیا تو موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا، ان لوگوں نے ہمیں کرائے کے بغیر سوار کر لیا اور تو نے ان کی کشتی کا رخ کر کے اس میں سوراخ کر ڈالا۔ نتیجہ یہ نکلے کہ کشتی والے غرق ہو جائیں تو نے بہت ناگوار کام کیا، اس نے کہا: کیا میں نےکہا نہیں صبر نہیں کر سکیں گے؟ موسی ٰ علیہ السلام نے کہا: میری بھول پر میرا مواخذہ نہ کیجئیے- اور مجھ پر میرے معاملے میں سختی نہ کریں، پھر کشتی سے نکلے اور وہ سمندر کے کنارے کنارےچل رہے تھے کہ انہوں نے ایک بچہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا دیکھا، سو خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑا اور اپنے ہاتھ سے اسے الگ کر دیا، اور اسے قتل کر ڈالا تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا آپ نے ایک بے گناہ لڑکے کو مار ڈالا، جس نے کسی کا خون نہ کیاتھا۔ آپ نے بہت ناپسندیدہ کام کیا، خضر علیہ السلام نےکہا کیا میں نے آپ سے کہا نہیں تھا، آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے؟ آپ نے فرمایا، یہ انکار پہلے سے شدید تھا، موسی علیہ السلام نے کہا، اگر اب میں کسی چیز کے بارے میں آپ سے سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں، آپ میری طرف سےمعذور ہوں گے۔ تووہ دونوں چل پڑے حتی کہ ایک بستی والوں کے پاس پہنچ گئے، بستی والوں کے باشندوں سے کھانا طلب کیا، انہوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کر دیا، تو وہاں انہوں  نے ایک دیوار پائی جوگرا چاہتی تھی، تو خضر علیہ السلام نے اسے شارے سے سیدھا کردیا، یعنی وہ ایک طرف جھکی ہوئی تھی، خضر علیہ السلام نے اسے اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا، موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا، یہ لوگ ہم ان کا پاس آئےتو انہوں نے ہماری مہمان نوازی نہ کی اور ہمیں کھانا نہ کھلایا، اگر آپ چاہتے تو آپ اس کام کی مزدوری لےلیتے، خضر علیہ السلام نے کہا، یہ میرے اور تیرےدومیان جدائی کا وقت ہے، میں ابھی آپ کو ان چیزوں کی حقیقت بتاتا ہوں، جن پر آپ صبر نہیں کر سکے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالی موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے، میں چاہتا ہوں موسی علیہ السلام نے صبر کیا ہوتا تا کہ ہمیں ان کی باتیں سنائی جاتیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’پہلی بار موسی علیہ السلام بھول گئے،‘‘ اور آپ نے فرمایا، ’’ایک چڑیا آئی اورکشتی کے کنارے بیٹھ گئی۔ پھر سمندر میں ٹھونگ ماری تو خضر علیہ السلام نے انہیں کہا، میرے اور تیرے علم نے اللہ کی معلومات میں اتنی ہی کمی کی ہے جتنا اس چڑیا نے سمندر میں کمی کی ہے‘‘ سعید بن جبیر کہتے ہیں، حضرت ابن عباس کی قرأت اس کرح تھی۔ ’’ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر صحیح اور سالم کشتی کو چھین لیتا تھا اور پڑھتے تھے، رہا غلام تو وہ کافر تھا۔‘‘