Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Fasting on the day of Ashura')
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2689.
جریر نے ہشام بن عروۃ (زبیر) سے، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، کہا: جاہلیت (کے ایام) میں قریش عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ آ گئےتو آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور روزہ کے رکھنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد رمضان کا مہینہ فرض (روزوں کے لیے متعین) کردیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’جو چاہے اس (عاشورہ) کا روزہ رکھ لے اور جو چاہے اسے چھوڑ دے۔‘‘
تشریح:
فوائد ومسائل
یہ سابقہ سچے دین کی باقیات میں سے تھا۔ آپﷺ اس پر عمل فرماتے رہے۔ جب اللہ نےرمضان کے روزے فرض کیے تو اسے لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
جریر نے ہشام بن عروۃ (زبیر) سے، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، کہا: جاہلیت (کے ایام) میں قریش عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ آ گئےتو آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور روزہ کے رکھنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد رمضان کا مہینہ فرض (روزوں کے لیے متعین) کردیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’جو چاہے اس (عاشورہ) کا روزہ رکھ لے اور جو چاہے اسے چھوڑ دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
یہ سابقہ سچے دین کی باقیات میں سے تھا۔ آپﷺ اس پر عمل فرماتے رہے۔ جب اللہ نےرمضان کے روزے فرض کیے تو اسے لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ آ گئے تو آپﷺ نے خود روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس روزہ کے رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان کے مہینہ کے روزے فرض ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو چاہے اس کا روزہ رکھے اور جو چاہے اسے چھوڑ دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
زمانہ جاہلیت میں قریش عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور کعبہ کو غلاف بھی پہناتے تھے روزہ رکھنے کی تین وجوہ بیان کی جاتی ہیں ۔ 1۔ ملت ابراہیمی میں دس کا روزہ تھا یہودیوں اور عیسائیوں سے سیکھا تھا۔ 2۔ قریش نے جاہلیت کے دور میں کسی انتہائی قبیح گناہ کا ارتکاب کیا جس کو انھوں نے انتہائی ناگوار خیال کیا تو کسی نے انہیں بطور کفارہ روزہ رکھنے کا مشورہ دیا۔ 3۔ وہ جاہلیت کے دور میں خشک سالی سے دوچار ہوئے اور اس کے ختم ہونے پر بطور شکرانہ روزہ رکھا چونکہ روزہ ایک پسندیدہ عمل تھا اس لیے آپﷺ بھی یہ روزہ رکھتے تھے ہجرت مدینہ کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو روزہ رکھتے دیکھا تو ان سے اس کا سبب پوچھا: انھوں نے بتایا کہ اس دن موسیٰ علیہ السلام کی سرکردگی میں بنو اسرائیل فرعونیوں کے پنجہ استبداد سے آزاد ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کی اقتدا میں روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ احناف کے نزدیک وجوب کے لیے تھا اور باقی آئمہ کے نزدیک استحباب تاکیدی کے لیے اور اب بالاتفاق اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha (Allah be pleased with her) reported that the Quraish used to fast on the day of 'Ashura in the pre-Islamic days and the Messenger ot Allah (ﷺ) also observed it. When he migrated to Madinah, he himself observed this fast and commanded (others) to observe it. But when fasting during the month of Ramadan was made obligatory he said: He who wishes to observe this fast may do so, and he who wishes to abandon it may do so.