Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Fasting on the day of Ashura')
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2705.
یونس نے ابن شہاب (زہری) سے روایت کی، (کہا:) مجھے حضرت حمید بن عبدالرحمان نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان کو مدینہ میں خطبہ دیتے ہوئے سنا۔۔ یعنی (جب) وہ ایک بار وہاں آئے۔ انہوں نے ان کو عاشورہ کے دن خطبہ دیا تو کہا: اہل مدینہ! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن کے بارے میں سنا، فرما رہے تھے ’’یہ عاشورہ کا دن ہے اللہ تعالیٰ تم پر اس کا روزہ فرض نہیں کیا، میں روزے سے ہوں تم میں سے جو اس کا روزہ رکھنا پسند کرے وہ روزہ رکھ لے اور جو روزہ نہ رکھنا چاہے، وہ نہ رکھے۔‘‘
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
یونس نے ابن شہاب (زہری) سے روایت کی، (کہا:) مجھے حضرت حمید بن عبدالرحمان نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان کو مدینہ میں خطبہ دیتے ہوئے سنا۔۔ یعنی (جب) وہ ایک بار وہاں آئے۔ انہوں نے ان کو عاشورہ کے دن خطبہ دیا تو کہا: اہل مدینہ! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن کے بارے میں سنا، فرما رہے تھے ’’یہ عاشورہ کا دن ہے اللہ تعالیٰ تم پر اس کا روزہ فرض نہیں کیا، میں روزے سے ہوں تم میں سے جو اس کا روزہ رکھنا پسند کرے وہ روزہ رکھ لے اور جو روزہ نہ رکھنا چاہے، وہ نہ رکھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حمید بن عبد الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں ایک دفعہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان مدینہ آئے اور انھوں نے عاشورہ کے دن خطبہ دیا میں نے ان سے خطبہ میں سنا، انھوں نے کہا تمھارے علماء کہاں ہیں؟ اسے اہل مدینہ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا، ’’یہ یوم عاشورہ ہے اللہ تعالیٰ تم پر اس کا روزہ فرض قرار نہیں دیا میں روزے دار ہوں تو تم میں سے جو پسند کرے کہ وہ روزہ رکھے وہ روزہ رکھ لے اور جو افطار پسند کرے وہ روزہ نہ رکھے (حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہوئے جس کا اظہار فتح مکہ کے بعد کیا)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abdul Rahman reported that he heard Mu'awiyahh bin Abu Sufyan (RA) delivering a sermon in Madinah. i. e. when he came there (for Hajj). He delivered a sermon on the day of 'Ashura and said: People of Madinah, where are your scholars? I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say on this very day: It is the day of 'Ashura. Allah has not made fasting on This day obligatory for you but I am fasting. He who likes to observe fast among you should do so, and he who likes not to observe it may not observe it.