Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Which day should be fasted for 'Ashura?)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2719.
ہم سے ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے جدیث بیان کی، کہا: ہم سے وکیع نے ابن ابی ذئب سے، انھوں نے قاسم بن عباس سے، انھوں نے عبداللہ بن عمیر سے، انھوں نے ۔۔۔شاید کہا۔۔۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو لازماً نویں (دن) کا روزہ رکھوں گا‘‘ ابو بکر کی روایت میں ہے (ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے) کہا: آپﷺ کی مراد عاشورہ کے دن سے تھی۔
تشریح:
فوائد ومسائل
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے الفاظ کا حافظ ابن حجر سمیت اکثر محدثین نے یہی مفہوم مراد لیا ہے کہ دسویں کے روزے کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ بھی شامل کر لیا جائے۔ یہ اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ اس سے یہود کی مخالفت بھی ہو جاتی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قریب تر تعلق کے تقاضے بھی پورے ہو جاتے ہیں اور خود رسول اللہ ﷺ کے آئیندہ کے عزم کے ساتھ ساتھ آپ کے اپنے معمول کی مطابقت بھی ہو جاتی ہے۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
ہم سے ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے جدیث بیان کی، کہا: ہم سے وکیع نے ابن ابی ذئب سے، انھوں نے قاسم بن عباس سے، انھوں نے عبداللہ بن عمیر سے، انھوں نے ۔۔۔شاید کہا۔۔۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو لازماً نویں (دن) کا روزہ رکھوں گا‘‘ ابو بکر کی روایت میں ہے (ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے) کہا: آپﷺ کی مراد عاشورہ کے دن سے تھی۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے الفاظ کا حافظ ابن حجر سمیت اکثر محدثین نے یہی مفہوم مراد لیا ہے کہ دسویں کے روزے کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ بھی شامل کر لیا جائے۔ یہ اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ اس سے یہود کی مخالفت بھی ہو جاتی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قریب تر تعلق کے تقاضے بھی پورے ہو جاتے ہیں اور خود رسول اللہ ﷺ کے آئیندہ کے عزم کے ساتھ ساتھ آپ کے اپنے معمول کی مطابقت بھی ہو جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو نویں کا روزہ رکھوں گا۔‘‘ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عاشورہ کا روزہ تھا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نویں کے روزے کی خواہش فرمائی تھی۔ اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہہ دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نویں کا روزہ رکھتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abdullah b 'Abbas reported that the Messenger of Allah (ﷺ) had said: If I live till the next (year), I would definitely observe fast on the 9th, and the narration transmitted by Abu Bakr (RA) is: "He meant the day of Ashura."