باب: عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دنوں میں روزہ رکھنے کی ممانعت
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The prohibition of fasting on the two days of 'Id)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2723.
ابن ازہر کے آزاد کردہ غلام ابو عبید سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے عید کی نماز حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ پڑھی، وہ تشریف لائے، نماز پڑھائی، پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو خطاب فرمایا اور کہا یہ دو دن ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے: (ایک) روزوں سے تمہاری فراعت کا دن، اور دوسرا وہ جس میں تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
ابن ازہر کے آزاد کردہ غلام ابو عبید سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے عید کی نماز حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ پڑھی، وہ تشریف لائے، نماز پڑھائی، پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو خطاب فرمایا اور کہا یہ دو دن ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے: (ایک) روزوں سے تمہاری فراعت کا دن، اور دوسرا وہ جس میں تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن ازہر کے آزاد کردہ غلام ابو عبید رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عید کی نماز حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں پڑھی وہ تشریف لائے نماز پڑھائی پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو خطاب فرمایا اور کہا یہ دو دن وہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ایک وہ دن جو تمھارے روزے چھوڑنے کا دن ہے اور دوسرا وہ دن ہے جس میں تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوا یوم الفطر کا روزہ اس لیے منع ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے رمضان کے بعد ’’فطر کا دن‘‘ یعنی روزہ نہ رکھنے اور کھانے پینے کا دن قراردیا ہے اس لیے اس دن روزہ رکھنے میں منشاء الٰہی کی مخالفت ہے اور یوم النحر کا روزہ اس لیے منع کیاکہ وہ قربانی کاگوشت کھانے کا دن ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ اس دن جو قربانیاں اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے حصول کے لیے کی جائیں، اس کے بندے ان قربانیوں کا گوشت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضیافت سمجھ کر خوش خوش کھائیں اور وہ انسان بلاشبہ بڑا متکبر اور نمک حرام ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی عام دعوت کے دن ، دانستہ روزہ رکھ لے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Ubaid, the freed slave of Ibn Azhar, reported: I observed Id along with Umar bin al-Khattab (RA) . He came (out in an open space) and prayed and (after) completing it addressed the people and said: The Messenger of Allah (ﷺ) has forbidden the observing of fast on these two days. One is the day of Fitr (at the end of your fasts), and the second one, the day when you eat (the meat) of your sacrifices.