صحیح مسلم
15. کتاب: روزے کے احکام و مسائل
26. باب: جس نے کسی عذر ‘مرض‘سفر اور حیض وغیرہ کی بنا پرروزہ چھوڑ ا ہو اس کے لیے رمضان (کے روزوں)کی قضا اگلے رمضان کی آمد (سے پہلے )تک مؤخر کرنے کا جواز
صحيح مسلم
15. كتاب الصيام
26. بَابُ قَضَاءِ رَمَضَانَ فِي شَعْبَانَ
Muslim
15. The Book of Fasting
26. Chapter: It is Permissible to delay making up missed Ramadan Fasts until before the next Ramadan comes, and this is for those who broke the fast for a reason such as sickness, travel, menstruation and the like
باب: جس نے کسی عذر ‘مرض‘سفر اور حیض وغیرہ کی بنا پرروزہ چھوڑ ا ہو اس کے لیے رمضان (کے روزوں)کی قضا اگلے رمضان کی آمد (سے پہلے )تک مؤخر کرنے کا جواز
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: It is Permissible to delay making up missed Ramadan Fasts until before the next Ramadan comes, and this is for those who broke the fast for a reason such as sickness, travel, menstruation and the like)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2743.
محمد بن ابراہیم نے ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہم میں سے کوئی ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں روزہ چھوڑتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اس کی قضا نہ دے پاتی، یہاں تک کہ شعبان آ جاتا۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
محمد بن ابراہیم نے ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہم میں سے کوئی ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں روزہ چھوڑتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اس کی قضا نہ دے پاتی، یہاں تک کہ شعبان آ جاتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم میں سے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں روزہ (حیض وغیرہ) کی بنا پر افطار کرتی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں شعبان کی آمد تک قضائی نہیں دے سکتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کے رمضان کے روزے کسی سبب، مرض، سفر یا مجبوری اور عذر حیض ونفاس، حمل وغیرہ کے سبب رہ جائیں تو ان کا رمضان کے فوراً بعد رکھنا ضروری نہیں ہے۔ اگلے رمضان کی آمد سے پہلے پہلے، جب چاہے وہ روزے رکھ سکتا ہے۔ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے شرف کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتی تھیں، اس لیے وہ شعبان ہی میں روزوں کی قضائی دیتی تھیں، کیونکہ اس ماہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت روزے رکھتے تھے ائمہ اربعہ کا مؤقف یہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha reported: If one amongst us had to break fasts of Ramadan (due to natural reasons, i. e. menses) during the life of the Messenger of Allah (ﷺ) she could not find it possible to complete them so long she had been in the presence of Allah's Messenger (ﷺ) till Sha'ban commenced.