صحیح مسلم
15. کتاب: روزے کے احکام و مسائل
34. باب: رمضان کے علاوہ (دوسرے مہینوں میں )نبی اکرم ﷺ کے روزے ‘یہ مستحب ہے کہ کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہ رہے
صحيح مسلم
15. كتاب الصيام
34. بَابُ صِيَامِ النَّبِيِّ ﷺ فِي غَيْرِ رَمَضَانَ، وَاسْتِحْبَابِ أَنْ لَا يُخْلِيَ شَهْرًا عَنْ صَوْمٍ
Muslim
15. The Book of Fasting
34. Chapter: The Prophet's Fasts at times other than Ramadan; and it is recommended to ensure that no month is free of fasting
باب: رمضان کے علاوہ (دوسرے مہینوں میں )نبی اکرم ﷺ کے روزے ‘یہ مستحب ہے کہ کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہ رہے
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The Prophet's Fasts at times other than Ramadan; and it is recommended to ensure that no month is free of fasting)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2773.
عمر بن عبیداللہ کے آزاد کردہ غلام ابو نضر نے ابو سلمہ بن عبدالرحمان (بن عوف) سے اور انھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رویت کی کہ انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ روزے رکھتے حتی کہ ہم کہتے: آپ ﷺ روزے ترک نہیں کریں گے اور آپ ﷺ روزے چھوڑ دیتے حتیٰ کہ ہم کہتے آپ ﷺ روزے نہیں رکھیں گے، اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے سوا کبھی کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں، اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ نے کسی (اور) مہینے میں اس سے زیادہ روزے رکھے ہوں جتنے شعبان میں رکھتے تھے۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
عمر بن عبیداللہ کے آزاد کردہ غلام ابو نضر نے ابو سلمہ بن عبدالرحمان (بن عوف) سے اور انھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رویت کی کہ انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ روزے رکھتے حتی کہ ہم کہتے: آپ ﷺ روزے ترک نہیں کریں گے اور آپ ﷺ روزے چھوڑ دیتے حتیٰ کہ ہم کہتے آپ ﷺ روزے نہیں رکھیں گے، اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے سوا کبھی کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں، اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ نے کسی (اور) مہینے میں اس سے زیادہ روزے رکھے ہوں جتنے شعبان میں رکھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے حتی کہ ہم یہ خیال کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب ناغہ نہیں کریں گے اور آپ روزے نہ رکھتے حتی کہ (مسلسل روزے نہ رکھنے سے) ہمیں خیال گزرتا اب آپﷺ روزے نہیں رکھیں گے اور میں نے نہیں دیکھا کہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے سوا کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے رکھے ہوں۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
نفلی روزوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی لگا بندھا دستور اور معمول نہ تھا، بلکہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل بلاناغہ روزے رکھنا شروع کر دیتے اورکبھی مسلسل روزے رکھنے میں ناغہ کرتے، کبھی ایسا کرتے کہ ایک ماہ شروع میں ہفتہ اتوار اور پیر کا روزہ رکھ لیتے اور اگلے ماہ منگل بدھ اور جمعرات کا روزہ رکھ لیتے ہر ہفتہ سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھتے۔ مقصد یہ تھا کہ نفلی روزوں کے رکھنے میں تنگی اور مشکل نہ ہو بلکہ وسعت کا راستہ کھلا رہے تاکہ ہر شخص اپنے احوال وظروف اور اپنی ہمت کے مطابق روزے رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ نفلی روزے ما ہ شعبان میں رکھتے تھے کیونکہ اس مہینے میں بارگاہ الٰہی میں بندوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں اور آپﷺ چاہتے تھے کہ جب آپﷺ کے اعمال پیش ہوں تو آپﷺ روزے سے ہوں، لیکن آپﷺ کا کوئی مہینہ، بلکہ کوئی ہفتہ روزوں سے خالی نہیں ہوتا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha, the Mother of the Believers (Allah be pleased with her), reported that the Messenger of Allah (ﷺ) used to observe fasts (so continuously) that we said that he would not break, and did not observe (them) till we said that he would not fast: and I did not see the Messenger of Allah (ﷺ) completing the fast of a month, but that of Ramadan, and I did not see him fasting more in any other month than that of Sha'ban.