تشریح:
فوائد و مسائل:
1۔ واضح حکم کی تاخیر حکمت سے خالی نہ تھی۔ عبداللہ بن عبداللہ بن ابی سلول رضی اللہ تعالی عنہ ایک مخلص مسلمان تھے اور رسول اللہ ﷺ کے سامنےیہ پیشکش کر چکے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے باپ عبداللہ بن ابی کے قتل کا فیصلہ فرمائیں تو اس پر عمل درآمد کے لیے انھی حکم دیں، رسول اللہﷺ ان کے لیے اپنے دل میں جو شفقت محسوس فرماتے تھے آپ نے اسی کے تقاضے پورے فرمائے۔
2۔ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی سلول کے مرنے کے موقع پر اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رضی اللہ تعالی عنہ کی دونوں خواہشیں مان لیں۔ انہیں اپنی قمیص عطا فرمائی اور جنازہ پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے توجہ دلائی کہ قرآن کی جو آیات نازل ہو چکی ہیں ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ کو منافقین کی جنازہ نہیں پڑھنا چاہئیے۔ آپﷺ کا جواب یہ تھا کہ اللہ نے آپ کو بالصراحہ جنازہ پڑھنے سے نہیں روکا۔ آپ اس ساری گفتگو کے بعد تشریف لے گئے تووہاں عبداللہ بن ابی کوقبر میں اتارا جا چکا تھا۔ اس کے اہل قبیلہ کو معلوم نہ تھا کہ عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ اس غرض سے رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے ہیں کہ آپ سے آپ کی قمیص مانگیں اور جنازے کے لیے بلا لائیں۔ آپ ﷺ وہاں تشریف لے گے تو ابن ابی کے جثے کو قبر سے نکال کر آپﷺ کے گھٹنوں پر رکھ دیا گیا اور آپ ﷺ نے اس کے بیٹے سے کیا گیا وعدہ پورا فرمادیا۔ اس واقعے کے بعد اللہ کی طرف سے یہ واضح حکم آ گیا: ﴿وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلاَ تَقُمْ عَلَىَ قَبْرِهِ﴾ ’’اور ان میں سے جو کوئی مر جائے، اس کا جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔‘‘ (التوبہ:84)