صحیح مسلم
15. کتاب: روزے کے احکام و مسائل
34. باب: رمضان کے علاوہ (دوسرے مہینوں میں )نبی اکرم ﷺ کے روزے ‘یہ مستحب ہے کہ کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہ رہے
صحيح مسلم
15. كتاب الصيام
34. بَابُ صِيَامِ النَّبِيِّ ﷺ فِي غَيْرِ رَمَضَانَ، وَاسْتِحْبَابِ أَنْ لَا يُخْلِيَ شَهْرًا عَنْ صَوْمٍ
Muslim
15. The Book of Fasting
34. Chapter: The Prophet's Fasts at times other than Ramadan; and it is recommended to ensure that no month is free of fasting
باب: رمضان کے علاوہ (دوسرے مہینوں میں )نبی اکرم ﷺ کے روزے ‘یہ مستحب ہے کہ کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہ رہے
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The Prophet's Fasts at times other than Ramadan; and it is recommended to ensure that no month is free of fasting)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2775.
یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو سلمہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سےروایت کی، اور کہا: رسول اللہ ﷺ سال کے کسی مہینے میں، شعبان سے بڑھ کر، روزے نہیں رکھتے تھے۔ آپ ﷺ فرمایا کر تے تھے: ’’اتنے ہی اعمال اپناؤ جتنوں کی تم طاقت رکھتے ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہرگز نہیں اکتائے گا حتیٰ کہ تم خود ہی (عمل کرنے سے) اکتا جاؤ گے۔‘‘ اور آپ ﷺ فرمایا کر تے تھے: ’’اللہ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل و ہ ہے جس پر عمل کرنے والا ہمیشہ قائم رہے چاہے وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو سلمہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سےروایت کی، اور کہا: رسول اللہ ﷺ سال کے کسی مہینے میں، شعبان سے بڑھ کر، روزے نہیں رکھتے تھے۔ آپ ﷺ فرمایا کر تے تھے: ’’اتنے ہی اعمال اپناؤ جتنوں کی تم طاقت رکھتے ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہرگز نہیں اکتائے گا حتیٰ کہ تم خود ہی (عمل کرنے سے) اکتا جاؤ گے۔‘‘ اور آپ ﷺ فرمایا کر تے تھے: ’’اللہ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل و ہ ہے جس پر عمل کرنے والا ہمیشہ قائم رہے چاہے وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سال بھر کسی ماہ میں شعبان سے زیادہ روزے دار نہیں ہوتے تھے اور فرماتے تھے۔ ’’اس قدر اعمال کرو۔ جو تمھارے بس میں ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ (اجرو ثواب دینے سے) نہیں اکتائے گا تم خود ہی (عمل کرنے سے) اکتا جاؤ گے۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ’’اللہ کے ہاں محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر صاحب عمل ہمیشگی کرے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha (Allah be pleased with her) reported: The Messenger of Allah (ﷺ) did not observe fast in any month of the year more than in the month of Sha'ban, and used to say: Do as many deeds as you are capable of doing, for Allah will not become weary (of giving you reward), but you would be tired (of doing good deeds); and he also said: The deed liked most by Allah is one to which the doer adheres constantly even if it is small.