صحیح مسلم
15. کتاب: روزے کے احکام و مسائل
34. باب: رمضان کے علاوہ (دوسرے مہینوں میں )نبی اکرم ﷺ کے روزے ‘یہ مستحب ہے کہ کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہ رہے
صحيح مسلم
15. كتاب الصيام
34. بَابُ صِيَامِ النَّبِيِّ ﷺ فِي غَيْرِ رَمَضَانَ، وَاسْتِحْبَابِ أَنْ لَا يُخْلِيَ شَهْرًا عَنْ صَوْمٍ
Muslim
15. The Book of Fasting
34. Chapter: The Prophet's Fasts at times other than Ramadan; and it is recommended to ensure that no month is free of fasting
باب: رمضان کے علاوہ (دوسرے مہینوں میں )نبی اکرم ﷺ کے روزے ‘یہ مستحب ہے کہ کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہ رہے
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The Prophet's Fasts at times other than Ramadan; and it is recommended to ensure that no month is free of fasting)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2778.
عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں عثمان بن حکیم نے حدیث سنائی، کہا: میں نے سعید بن جبیر سے رجب میں روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا، اور ہم ان دنوں رجب میں ہی تھے، تو انھوں نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا: رسول اللہ ﷺ روزے رکھتے حتیٰ کہ ہم کہتے: آپ ﷺ روزے ترک نہیں کریں گے اور آپ ﷺ روزے ترک کرتے حتیٰ کہ ہم کہتے: آپ ﷺ روزے نہیں رکھیں گے۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں عثمان بن حکیم نے حدیث سنائی، کہا: میں نے سعید بن جبیر سے رجب میں روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا، اور ہم ان دنوں رجب میں ہی تھے، تو انھوں نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا: رسول اللہ ﷺ روزے رکھتے حتیٰ کہ ہم کہتے: آپ ﷺ روزے ترک نہیں کریں گے اور آپ ﷺ روزے ترک کرتے حتیٰ کہ ہم کہتے: آپ ﷺ روزے نہیں رکھیں گے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عثمان بن حکیم انصاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے ماہ رجب میں سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رجب کے روزے کے بارے میں سوال کیا؟ تو انھوں نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بسا اوقات) روزے شروع کرتے حتی کہ ہمیں خیال گزرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم افطار نہیں کریں گے (اور بسا اوقات اس کے بر عکس ) روزے شروع نہ کرتے حتی کہ ہم خیال کرتے آپﷺ روزے نہیں رکھیں گے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Uthman bin Hakim al-Ansari said: I asked Sa'id bin Jubair about fasting In Rajab, and we were then passing through the month of Rajab, whereupon he said: I heard Ibn 'Abbas (Allah be pleased with both of them) as saying: The Messenger of Allah (ﷺ) used to observe fast (so continuously) that we (were inclined) to say that he would not break (them) and did not observe them so continuously) that we (were inclined to say) that he would not observe fast.