صحیح مسلم
15. کتاب: روزے کے احکام و مسائل
35. باب: اس شخص کے لیے سال بھر کے روزے رکھنے کی ممانعت جسے اس سےنقصان پہنچنے یا وہ اس کی وجہ سے کسی حق کو ضائع کرے ‘یا عید ین اور ایام تشریق کاٰ روزہ بھی نہ چھوڑے ‘اور ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن نہ رکھنے کی فضیلت
صحيح مسلم
15. كتاب الصيام
35. بَابُ النَّهْيِ عَنْ صَوْمِ الدَّهْرِ لِمَنْ تَضَرَّرَ بِهِ أَوْ فَوَّتَ بِهِ حَقًّا أَوْ لَمْ يُفْطِرِ الْعِيدَيْنِ وَالتَّشْرِيقَ، وَبَيَانِ تَفْضِيلِ صَوْمِ يَوْمٍ، وَإِفْطَارِ يَوْمٍ
Muslim
15. The Book of Fasting
35. Chapter: Prohibition of Fasting for a lifetime for the one who will be harmed by that or who will neglect other duties, or does not break his fast on the two 'Ids or during the days of At-Tashriq; It is better to fast alternate days
باب: اس شخص کے لیے سال بھر کے روزے رکھنے کی ممانعت جسے اس سےنقصان پہنچنے یا وہ اس کی وجہ سے کسی حق کو ضائع کرے ‘یا عید ین اور ایام تشریق کاٰ روزہ بھی نہ چھوڑے ‘اور ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن نہ رکھنے کی فضیلت
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Prohibition of Fasting for a lifetime for the one who will be harmed by that or who will neglect other duties, or does not break his fast on the two 'Ids or during the days of At-Tashriq; It is better to fast alternate days)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2785.
شیبان نے یحییٰ سے، انہوں نے بنو زہرہ کے مولیٰ محمد بن عبدالرحمان سے، انھوں نے ابو سلمہ سے روایت کی۔ (یحییٰ نے کہا:) میرا اپنے بارے میں خیال ہے کہ میں نے خود بھی یہ حدیث ابو سلمہ سے سنی، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’قرآن مجید کی تلاوت مہینے میں (مکمل ) کیا کرو۔‘‘میں نے عرض کی: میں (اس سے زیادہ کی) قوت پاتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بیس راتوں میں پڑھ لیا کرو۔‘‘ میں نے عرض کی: میں (اس سے زیادہ کی) قوت پاتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سات دنوں میں پڑھ لیا کرو۔ اور اس سے زیادہ (قراءت) مت کرنا۔‘‘
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
شیبان نے یحییٰ سے، انہوں نے بنو زہرہ کے مولیٰ محمد بن عبدالرحمان سے، انھوں نے ابو سلمہ سے روایت کی۔ (یحییٰ نے کہا:) میرا اپنے بارے میں خیال ہے کہ میں نے خود بھی یہ حدیث ابو سلمہ سے سنی، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’قرآن مجید کی تلاوت مہینے میں (مکمل ) کیا کرو۔‘‘میں نے عرض کی: میں (اس سے زیادہ کی) قوت پاتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بیس راتوں میں پڑھ لیا کرو۔‘‘ میں نے عرض کی: میں (اس سے زیادہ کی) قوت پاتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سات دنوں میں پڑھ لیا کرو۔ اور اس سے زیادہ (قراءت) مت کرنا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن مجید ہر ماہ ختم کرو۔ میں نے عرض کیا مجھ میں (اس سے زیادہ کی) قوت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیس رات میں پڑھ لیا کرو۔‘‘ میں نے عرض کیا: مجھ میں قوت ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ہر سات دن میں ختم کرو۔ اس پر اضافہ نہ کرنا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin 'Amr (RA) reported: The Messenger of Allah (ﷺ) said to me: Recite the whole of the Qur'an during every month. I said: I find power (to recite it) in a shorter period. He said: Then recite it in twenty nights. I said: I find power (to recite it in a shorter period even than this), whereupon he said: Then recite it in seven (nights) and do not exceed beyond it.