باب: رمضان کے بعد شوال کے چھ دنوں کے روزے رکھنا مستحب ہے
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: It is recommended to fast Six Days in Shawwal following Ramadan)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2811.
ہمیں اس عیل بن جعفر نے حدیث سنائی، (کہا:) مجھے سعد بن سعید قیس نے عمر بن ثابت بن حارث خزرجی سے خبر دی، انھوں نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی انھوں نے ان کو حدیث سنائی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے رمضا ن کے روزے رکھے۔ پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ (پوراسال) مسلسل روزے رکھنے کی طرح ہے ۔‘‘
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
ہمیں اس عیل بن جعفر نے حدیث سنائی، (کہا:) مجھے سعد بن سعید قیس نے عمر بن ثابت بن حارث خزرجی سے خبر دی، انھوں نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی انھوں نے ان کو حدیث سنائی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے رمضا ن کے روزے رکھے۔ پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ (پوراسال) مسلسل روزے رکھنے کی طرح ہے ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ عمل ہمیشہ روزے رکھنے کی مثل (برابر) ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے عید الفطر کے بعد یہ چھ روزے پے در پے اور متصل رکھے جائیں، اگرچہ جائز یہ بھی ہے کہ ماہ شوال کے اندر اندر جب چاہے اور جیسے چاہے رکھ لیے جائیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، اور محدثین کے نزدیک یہ روزے رکھنے چائیں تاکہ صوم الدہر کا ثواب مل سکے، رمضان کا مہینہ 29 کا ہو تب بھی اللہ کے فضل وکرم سے ثواب 30 روزوں کا ہی ملتا ہے اور شوال کے چھ نفلی روزے ملا کرتعداد 36 ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے کریمانہ اصول اور ایک نیکی کا ثواب دس گنا کے مطابق 36 کا دس گنا 360 ہوگا اور قمری سال کے دن تین سوساٹھ 360 سے کم ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ نفلی روزے رکھے، وہ اس حساب سے 360 روزوں کے اجروثواب کا مستحق ہو گا۔ لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ روزے مکروہ ہیں۔ امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک متصلاً رمضان کے فوراً بعد مکروہ ہیں لیکن بعد میں الگ جائز ہیں۔ جبکہ متاخرین مالکیہ اور احناف جواز کے قائل ہیں۔ ابن رشد اور ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح کی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Ayyub al-Ansari (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: He who observed the fast of Ramadan and then followed it with six (fasts) of Shawwal it would be as if he fasted perpetually.