Muslim:
The Book of Purification
(Chapter: Wiping over the khuff (leather socks))
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
639.
لیث نے یحیی بن سعید سے، انہوں نے سعد بن ابراہیم سے، انہوں نے نافع بن جبیر سے، انہوں نے عروہ بن مغیرہ سے، انہوں نے اپنے والد مغیرہ بن شعبہ ؓ سے انہوں رسول اللہ ﷺ سے روایت کی: ’’کہ آپ ﷺ اپنی حاجت کے لیے نکلے تو مغیرہ ؓ آپ کے پیچھے برتن لے کر آئے جس میں پانی تھا، جب آپ ﷺ اپنی حاجت سے فارغ ہو گئے تو انہوں نے آپ (کے ہاتھوں) پر پانی ڈالا، آپ ﷺ نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔‘‘ ابن رمح کی روایت میں ’’حب‘‘ کے بجائے ’’یہاں تک کہ (آپ فار غ ہو گئے)‘‘ کے الفاظ ہیں۔
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت
طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے ) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے‘‘ (المدثر 71
اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی ، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں ۔
مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔
نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
لیث نے یحیی بن سعید سے، انہوں نے سعد بن ابراہیم سے، انہوں نے نافع بن جبیر سے، انہوں نے عروہ بن مغیرہ سے، انہوں نے اپنے والد مغیرہ بن شعبہ ؓ سے انہوں رسول اللہ ﷺ سے روایت کی: ’’کہ آپ ﷺ اپنی حاجت کے لیے نکلے تو مغیرہ ؓ آپ کے پیچھے برتن لے کر آئے جس میں پانی تھا، جب آپ ﷺ اپنی حاجت سے فارغ ہو گئے تو انہوں نے آپ (کے ہاتھوں) پر پانی ڈالا، آپ ﷺ نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔‘‘ ابن رمح کی روایت میں ’’حب‘‘ کے بجائے ’’یہاں تک کہ (آپ فار غ ہو گئے)‘‘ کے الفاظ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مرفوع روایت ہے: ’’کہ رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے گئے، میں پانی کا برتن لے کر آپ کے پیچھے گیا، جب حاجت سے فارغ ہوئے، تو مغیرہؓ نے پانی ڈالا اور آپ نے وضو فرمایا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔‘‘ ابن رمح کی روایت "حِينَ" کی جگہ "حَتّٰی فَرَغَ" ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The son of Mughira bin Shu'bah reported: The Messenger of Allah (ﷺ) went out for relieving himself. Mughira went with him carrying a jug full of water. When he (the Holy Prophet) came back after relieving himself, he poured water over him and he performed ablution and wiped over his socks; and in the narration of Ibn Rumh there is "till" instead of "when".