قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ (بَابُ الرُّخْصَةِ فِي التَّخَلُّفِ عَنِ الْجَمَاعَةِ بِعُذْرٍ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

657.04. وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، كِلَاهُمَا عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ رَبِيعٍ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ يُونُسَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ أَوِ الدُّخَيْشِنِ، وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ قَالَ مَحْمُودٌ: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ نَفَرًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا قُلْتَ، قَالَ: فَحَلَفْتُ إِنْ رَجَعْتُ إِلَى عِتْبَانَ أَنْ أَسْأَلَهُ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَوَجَدْتُهُ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ وَهُوَ إِمَامُ قَوْمِهِ، فَجَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَحَدَّثَنِيهِ كَمَا حَدَّثَنِيهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: «ثُمَّ نَزَلَتْ بَعْدَ ذَلِكَ فَرَائِضُ وَأُمُورٌ نَرَى أَنَّ الْأَمْرَ انْتَهَى إِلَيْهَا فَمَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَغْتَرَّ فَلَا يَغْتَرَّ»،

مترجم:

657.04.

معمر نے زہری سے روایت کیا، کہا: مجھے محمود بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث سنائی، کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا ۔۔۔۔۔پھر یونس کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی، البتہ یہ کہا: تو ایک آدمی نے کہا: مالک بن دخشن یا دخیشن کہاں ہے؟ اور حدیث میں یہ اضافہ کیا: محمود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے یہ حدیث چند لوگوں کو، جن میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے، سنائی تو انھوں نے کہا: میں نہیں سمجھتا کہ جو بات تم بیان کرتے ہو رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہو۔ اس پر میں نے (دل میں) قسم کھائی کہ اگر میں عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں دوبارہ گیا تو ان سے (اس کے بارے میں ضرور) پوچھوں گا۔ تو میں دوبارہ ان کے پاس آیا، میں نے دیکھا کہ وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں، ان کی بینائی ختم ہو چکی تھی لیکن وہ (اب بھی) اپنی قوم کے امام تھے۔ میں ان کے پہلو میں بیٹھ گیا اور ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے مجھے بالکل اسی طرح (ساری) حدیث سنائی جس طرح پہلے سنائی تھی۔ زہری نے کہا: اس واقعے کے بعد بہت سے فرائض اور دیگر امور (احکام) نازل ہوئے اور ہماری نظر میں معاملہ انھی پر تمام ہوا، لہٰذا جو انسان چاہتا ہےکہ (عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کے ظاہری مفہوم سے) دھو کا نہ کھائے، وہ دھوکا کھانے سے بچے۔