باب: مستحاضہ ( جس عورت کو استحاضہ ہو جائے )، اس کاغسل اور اس کی نماز
)
Muslim:
The Book of Menstruation
(Chapter: The ghusl and the prayer of a woman who is suffering prolonged vaginal bleeding (istihadah))
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
772.
قتیبہ بن سعید اور محمد بن رمح نے لیث سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا، انہوں نےکہا: ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ پوچھا اور کہا: مجھے استحاضہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ ایک رگ (کا خون) ہے۔ تم غسل کرو، پھر (حیض کے ایام کے خاتمے پر) نماز پڑھو۔‘‘ تو وہ ہر نماز کےوقت غسل کرتی تھیں۔ (امام) لیث بن سعد نے کہا: ابن شہاب نے یہ نہیں کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا کو ہر نماز کے لیے غسل کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ ایسا کام تھا جو وہ خود کرتی تھیں۔ لیث کے شاگردوں میں سے ابن رمح نے ابنة جحش کے الفاظ استعمال کیے اور ام احبیبہ نہیں کہا۔
حیض : وہ خون ہے جو بلوغت سے لے کر سن یاس تک عورت کو تقریبا چار ہفتے کے وقفے سے ہر ماہ آتا ہے اور دوران حمل اور عموما رضاعت کے زمانے میں بند ہو جاتا ہے۔ ایک حیض سے لے کر دوسرے حیض تک کے عرصے کو شریعت میں ’’طُهْر‘‘ کہتے ہیں۔
اسلام سے پہلے زیادہ تر انسانی معاشرے اس حوالے سے جہالت اور توہمات کا شکار تھے۔ یہودان ایام میں عورت کو انتہائی نجس اور غلیظ سمجھتے۔ جس چیز کو اس کا ہاتھ لگتا اسے بھی پلید سمجھتے ۔ اسے سونے کے کمروں اور باورچی خانے وغیرہ سے دور رہنا پڑتا۔ نصاریٰ بھی مذہبی طور پر یہودیوں سے متفق تھے۔ ان کے ہاں بھی حیض کے دوران میں عورت انتہائی نجس تھی اور جو کوئی اس کو چھو لیتا وہ بھی نجس سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ان کی اکثریت عملا عہد نامہ قدیم کے احکامات پرعمل نہ کرتی تھی بلکہ وہ دوسری انتہا پر تھی۔ عام عیسائی اس دوران میں بھی عورتوں سے مقاربت کر لیتے تھے۔
صحابہ کرام نے اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا۔ اس کے جواب میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾ ’’اور (لوگ) آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بتا دیجیے یہ اذیت ( کا زمانہ ہے)، اس لیے محیض (زمانہ حیض یا جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے اس مقام میں) عورتوں سے( جماع کرنے سے) دور رہو اور ان سے مقاربت نہ کرو یہاں تک کہ وہ حالت طہر میں آجائیں (حیض کے ایام ختم ہو جائیں)، پھر جب وہ پاک صاف ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ، جہاں سے اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے، اللہ (اپنی طرف) رجوع کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“ ((البقرۃ 222:2) اس آیت میں اللہ تعالی نے محیض کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ مصدر بھی ہے اور اسم ظرف بھی۔ مصدر ہو تو وہی معنی ہیں جو حیض کے ہیں، لیکن مخصوص ایام میں عورتوں کو خون آنا، یعنی اس کے دوران احتراز کرو۔ اسم ظرف ہو تو ظرف زمانی کی حیثیت سے معنی ہوں گے: حیض کا زمانہ مفہوم یہ ہو گا کہ حیض کے دنوں میں بیویوں کے ساتھ جنسی مقاربت ممنوع ہے۔ ظرف مکان کی حیثیت سےمحیض سے مراد وہ جگہ ہوگی جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے۔ ظرف مکان مراد لیتے ہوئے لسان العرب میں اس آیت کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے:ان المحيض فى هذاالاية الماتى من المراة لانه موضع الحيض فكانه قال:اعتزلوا النساءفى موضع الحيض ،لاتجامعوهن فى ذلك المكان.
اس آیت میں محیض سے عورت کے جسم )کا وہ حصہ مراد ہے جہاں مجامعت کی جاتی ہے کیونکہ یہی حیض ( کے اخراج کی (بھی) جگہ ہے۔ گویا یہ فرمایا: حیض ( کے اخراج) کی جگہ میں عورتوں( کے ساتھ مباشرت) سے دور رہو، اس جگہ ان کے ساتھ جماع نہ کرو۔‘‘
حیض کا جو بھی معنی میں مفہوم یہی ہے کہ ان دنوں میں بیویوں سے صنفی تعلقات سے پرہیز کیا جائے لیکن، اس باب کی احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو ساتھ رکھا جائے، ان کی طرف التفات اور توجہ کو برقرار رکھا جائے۔
قرآن نے عورتوں کی اس فطری حالت کے بارے میں تمام جاہلانہ افکار کی تردید کر دی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے فطری
معاملہ ہونے کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا: «هذا شيء كتبه الله على بنات آدم) (صحيح البخارى ،الحيض ،باب كيف كان بدءالحيض ،قبل الحديث:294)یہ ایسی چیز ہے کہ آدم کی بیٹیوں کے بارے میں اللہ نے اس کا فیصلہ فرمایا ہے۔‘‘ قرآن کے الفاظ( و هو اذی )کے معنی ہیں: یہ ادنی اذیت (کم درجے کی تکلیف کا زمانہ)ہے۔ عورت کو یہ اذیت جسمانی تبدیلیوں ، نفسیاتی کیفیت، ناپاک خون اور اس کی بدبو کی وجہ سے پہنچتی ہے۔ اسلام نے اس فطری تکلیف کے زمانے میں عورتوں کو سہولت دیتے ہوئے نماز معاف کر دی اور رمضان کے روزے کے لیے وہی سہولت دی جو مریض کو دی جاتی ہے۔ یعنی ان دنوں میں وہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں اپنے روزے پورے کر لے۔
موجودہ میڈیکل سائنس نے بھی اب اسی بات کی شہادت مہیا کر دی ہے کہ ان دنوں میں خواتین بے آرامی، اضطراب اور ہلکی تکلیف کا شکار رہتی ہیں ۔ سنجیدہ قسم کے فرائض ادا کرنے میں انھیں دقت پیش آتی ہے، اس لیے جہاں وہ ملازمت کرتی ہیں ان اداروں کا فرض ہے کہ ان ایام میں عورتوں کے فرائض کی ادائیگی میں سہولت مہیا کریں۔ وہ سہولت کیا ہو؟ روشن خیالی اور حقوق نسواں کا لحاظ کرنے کے دعووں کے باوجود مغربی تہذیب ابھی تک ایسی کسی سہولت کے بارے میں سوچنے سے معذور ہے جبکہ اسلام نے ، جودین فطرت ہے، پہلے ہی ان کے فرائض میں تخفیف کر دی۔
تکلیف اور اضطراب کی اس حالت میں گھر کے دوسرے افراد بالخصوص خاوند کی طرف سے کراہت اور نفرت کا اظہار نفسیاتی طور پر عورت کے لیے شدید تکلیف اور پریشانی کا باعث بن جاتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے خلاف یہودیوں اور دیگر جاہل معاشروں کے ظالمانہ رویے کا ازالہ کیا اور یہ اہتمام فرمایا کہ خاوند کے ساتھ اس کے جنسی تعلقات تو منقطع ہو جائیں، کیونکہ وہ عورت کے لیے مزید تکلیف کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن عورت اس دوران میں باقی معاملات میں گھر والوں بالخصوص خاوند کی بھر پور توجہ اور محبت کا مرکز رہے۔ صحیح مسلم کی کتاب الحیض کے آغاز کے ابواب میں اس اہتمام کی تفصیلات مذکور ہیں۔
آگے کے ابواب میں مردوں اور عورتوں کے نجی زندگی کے مختلف احوال کے دوران میں عبادت کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ عورتوں کے خصوصی ایام کے ساتھ متصل یا ملتی جلتی بعض بیماریوں اور ولادت کے عرصے کے دوران میں طہارت کے مسائل بھی کتاب الحیض کا حصہ ہیں۔
قتیبہ بن سعید اور محمد بن رمح نے لیث سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا، انہوں نےکہا: ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ پوچھا اور کہا: مجھے استحاضہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ ایک رگ (کا خون) ہے۔ تم غسل کرو، پھر (حیض کے ایام کے خاتمے پر) نماز پڑھو۔‘‘ تو وہ ہر نماز کےوقت غسل کرتی تھیں۔ (امام) لیث بن سعد نے کہا: ابن شہاب نے یہ نہیں کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا کو ہر نماز کے لیے غسل کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ ایسا کام تھا جو وہ خود کرتی تھیں۔ لیث کے شاگردوں میں سے ابن رمح نے ابنة جحش کے الفاظ استعمال کیے اور ام احبیبہ نہیں کہا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ام حبیبہ بنت حجش رضی اللہ تعالی عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے استحاضہ آتا رہتا ہے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ تو ایک رگ کا خون ہے لہٰذا (حیض سے) نہا کر نماز پڑھ۔‘‘ تو وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں، لیث بن سعد نے کہا: ابن شہاب نے یہ بیان نہیں کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ام حبیبہ بنت حجش رضی اللہ تعالی عنہا کو ہر نماز کے لیے نہانے کا حکم دیا تھا۔ یہ کام وہ اپنے طور پر کرتی تھیں، ابن رمح کی روایت میں ام حبیبہ بنت حجش رضی اللہ تعالی عنہا کی جگہ صرف ابنة حجش آیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha reported: Umm Habiba bin Jahsh thus asked for a verdict from the Messenger of Allah (ﷺ) : I am a woman whose blood keeps flowing (after the menstrual period). He (the Holy Prophet) said: That is only a vein, so take a bath and offer prayer; and she took a bath at the time of every prayer. Laith bin Sa'd said: Ibn Shihab made no mention that the Messenger of Allah (ﷺ) had ordered her to take a bath at the time of every prayer, but she did it of her own accord. And in the tradition transmitted by Ibn Rumh there is no mention of Umm Habiba (and there is mention of the daughter of Jahsh only.)