Muslim:
The Book of Menstruation
(Chapter: It is permissible to bathe naked when one is alone)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
787.
ہمام بن منبہ سے روایت ہے کہا: یہ وہ احادیث ہیں جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں رسول اللہ ﷺ سے (نقل کرتے ہوئے سنائیں) انہوں نےمتعدد احادیث بیان کیں ان میں سے ایک یہ ہے: رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’بنی اسرائیل بے لباس ہو کر، اس طرح نہاتے تھے کہ ایک دوسرے کا ستر دیکھ رہے ہوتے اور موسیٰ علیہ السلام اکیلے نہایا کرتے تھے۔ بنواسرائیل کہنے لگے: اللہ کی قسم !موسیٰ علیہ السلام ہمارے ساتھ محض اس لیے نہیں نہاتے کہ ان کے خصیتین پھولے ہوئےہیں۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ نہانے کے لیے گئے تو اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیے، پتھر آپﷺ کے کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا، موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے یہ کہتے ہوئے سرپٹ دوڑ پڑے: او پتھر! میرے کپڑے، اوپتھر! میرے کپڑے، یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کے ستر کو دیکھ لیا اور کہنے لگے: اللہ کی قسم! موسیٰ علیہ السلام کو تو کوئی بیماری نہیں ہے، جب موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ لیا گیا تو پتھر ٹھہر گیا، موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کپڑے پہنے اور پتھر کو مارنے لگے۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! پتھر پر چھ یا سات نشان تھے، یہ پتھر کو موسیٰ علیہ السلام کی مار تھی۔
حیض : وہ خون ہے جو بلوغت سے لے کر سن یاس تک عورت کو تقریبا چار ہفتے کے وقفے سے ہر ماہ آتا ہے اور دوران حمل اور عموما رضاعت کے زمانے میں بند ہو جاتا ہے۔ ایک حیض سے لے کر دوسرے حیض تک کے عرصے کو شریعت میں ’’طُهْر‘‘ کہتے ہیں۔
اسلام سے پہلے زیادہ تر انسانی معاشرے اس حوالے سے جہالت اور توہمات کا شکار تھے۔ یہودان ایام میں عورت کو انتہائی نجس اور غلیظ سمجھتے۔ جس چیز کو اس کا ہاتھ لگتا اسے بھی پلید سمجھتے ۔ اسے سونے کے کمروں اور باورچی خانے وغیرہ سے دور رہنا پڑتا۔ نصاریٰ بھی مذہبی طور پر یہودیوں سے متفق تھے۔ ان کے ہاں بھی حیض کے دوران میں عورت انتہائی نجس تھی اور جو کوئی اس کو چھو لیتا وہ بھی نجس سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ان کی اکثریت عملا عہد نامہ قدیم کے احکامات پرعمل نہ کرتی تھی بلکہ وہ دوسری انتہا پر تھی۔ عام عیسائی اس دوران میں بھی عورتوں سے مقاربت کر لیتے تھے۔
صحابہ کرام نے اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا۔ اس کے جواب میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾ ’’اور (لوگ) آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بتا دیجیے یہ اذیت ( کا زمانہ ہے)، اس لیے محیض (زمانہ حیض یا جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے اس مقام میں) عورتوں سے( جماع کرنے سے) دور رہو اور ان سے مقاربت نہ کرو یہاں تک کہ وہ حالت طہر میں آجائیں (حیض کے ایام ختم ہو جائیں)، پھر جب وہ پاک صاف ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ، جہاں سے اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے، اللہ (اپنی طرف) رجوع کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“ ((البقرۃ 222:2) اس آیت میں اللہ تعالی نے محیض کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ مصدر بھی ہے اور اسم ظرف بھی۔ مصدر ہو تو وہی معنی ہیں جو حیض کے ہیں، لیکن مخصوص ایام میں عورتوں کو خون آنا، یعنی اس کے دوران احتراز کرو۔ اسم ظرف ہو تو ظرف زمانی کی حیثیت سے معنی ہوں گے: حیض کا زمانہ مفہوم یہ ہو گا کہ حیض کے دنوں میں بیویوں کے ساتھ جنسی مقاربت ممنوع ہے۔ ظرف مکان کی حیثیت سےمحیض سے مراد وہ جگہ ہوگی جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے۔ ظرف مکان مراد لیتے ہوئے لسان العرب میں اس آیت کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے:ان المحيض فى هذاالاية الماتى من المراة لانه موضع الحيض فكانه قال:اعتزلوا النساءفى موضع الحيض ،لاتجامعوهن فى ذلك المكان.
اس آیت میں محیض سے عورت کے جسم )کا وہ حصہ مراد ہے جہاں مجامعت کی جاتی ہے کیونکہ یہی حیض ( کے اخراج کی (بھی) جگہ ہے۔ گویا یہ فرمایا: حیض ( کے اخراج) کی جگہ میں عورتوں( کے ساتھ مباشرت) سے دور رہو، اس جگہ ان کے ساتھ جماع نہ کرو۔‘‘
حیض کا جو بھی معنی میں مفہوم یہی ہے کہ ان دنوں میں بیویوں سے صنفی تعلقات سے پرہیز کیا جائے لیکن، اس باب کی احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو ساتھ رکھا جائے، ان کی طرف التفات اور توجہ کو برقرار رکھا جائے۔
قرآن نے عورتوں کی اس فطری حالت کے بارے میں تمام جاہلانہ افکار کی تردید کر دی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے فطری
معاملہ ہونے کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا: «هذا شيء كتبه الله على بنات آدم) (صحيح البخارى ،الحيض ،باب كيف كان بدءالحيض ،قبل الحديث:294)یہ ایسی چیز ہے کہ آدم کی بیٹیوں کے بارے میں اللہ نے اس کا فیصلہ فرمایا ہے۔‘‘ قرآن کے الفاظ( و هو اذی )کے معنی ہیں: یہ ادنی اذیت (کم درجے کی تکلیف کا زمانہ)ہے۔ عورت کو یہ اذیت جسمانی تبدیلیوں ، نفسیاتی کیفیت، ناپاک خون اور اس کی بدبو کی وجہ سے پہنچتی ہے۔ اسلام نے اس فطری تکلیف کے زمانے میں عورتوں کو سہولت دیتے ہوئے نماز معاف کر دی اور رمضان کے روزے کے لیے وہی سہولت دی جو مریض کو دی جاتی ہے۔ یعنی ان دنوں میں وہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں اپنے روزے پورے کر لے۔
موجودہ میڈیکل سائنس نے بھی اب اسی بات کی شہادت مہیا کر دی ہے کہ ان دنوں میں خواتین بے آرامی، اضطراب اور ہلکی تکلیف کا شکار رہتی ہیں ۔ سنجیدہ قسم کے فرائض ادا کرنے میں انھیں دقت پیش آتی ہے، اس لیے جہاں وہ ملازمت کرتی ہیں ان اداروں کا فرض ہے کہ ان ایام میں عورتوں کے فرائض کی ادائیگی میں سہولت مہیا کریں۔ وہ سہولت کیا ہو؟ روشن خیالی اور حقوق نسواں کا لحاظ کرنے کے دعووں کے باوجود مغربی تہذیب ابھی تک ایسی کسی سہولت کے بارے میں سوچنے سے معذور ہے جبکہ اسلام نے ، جودین فطرت ہے، پہلے ہی ان کے فرائض میں تخفیف کر دی۔
تکلیف اور اضطراب کی اس حالت میں گھر کے دوسرے افراد بالخصوص خاوند کی طرف سے کراہت اور نفرت کا اظہار نفسیاتی طور پر عورت کے لیے شدید تکلیف اور پریشانی کا باعث بن جاتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے خلاف یہودیوں اور دیگر جاہل معاشروں کے ظالمانہ رویے کا ازالہ کیا اور یہ اہتمام فرمایا کہ خاوند کے ساتھ اس کے جنسی تعلقات تو منقطع ہو جائیں، کیونکہ وہ عورت کے لیے مزید تکلیف کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن عورت اس دوران میں باقی معاملات میں گھر والوں بالخصوص خاوند کی بھر پور توجہ اور محبت کا مرکز رہے۔ صحیح مسلم کی کتاب الحیض کے آغاز کے ابواب میں اس اہتمام کی تفصیلات مذکور ہیں۔
آگے کے ابواب میں مردوں اور عورتوں کے نجی زندگی کے مختلف احوال کے دوران میں عبادت کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ عورتوں کے خصوصی ایام کے ساتھ متصل یا ملتی جلتی بعض بیماریوں اور ولادت کے عرصے کے دوران میں طہارت کے مسائل بھی کتاب الحیض کا حصہ ہیں۔
ہمام بن منبہ سے روایت ہے کہا: یہ وہ احادیث ہیں جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں رسول اللہ ﷺ سے (نقل کرتے ہوئے سنائیں) انہوں نےمتعدد احادیث بیان کیں ان میں سے ایک یہ ہے: رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’بنی اسرائیل بے لباس ہو کر، اس طرح نہاتے تھے کہ ایک دوسرے کا ستر دیکھ رہے ہوتے اور موسیٰ علیہ السلام اکیلے نہایا کرتے تھے۔ بنواسرائیل کہنے لگے: اللہ کی قسم !موسیٰ علیہ السلام ہمارے ساتھ محض اس لیے نہیں نہاتے کہ ان کے خصیتین پھولے ہوئےہیں۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ نہانے کے لیے گئے تو اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیے، پتھر آپﷺ کے کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا، موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے یہ کہتے ہوئے سرپٹ دوڑ پڑے: او پتھر! میرے کپڑے، اوپتھر! میرے کپڑے، یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کے ستر کو دیکھ لیا اور کہنے لگے: اللہ کی قسم! موسیٰ علیہ السلام کو تو کوئی بیماری نہیں ہے، جب موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ لیا گیا تو پتھر ٹھہر گیا، موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کپڑے پہنے اور پتھر کو مارنے لگے۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! پتھر پر چھ یا سات نشان تھے، یہ پتھر کو موسیٰ علیہ السلام کی مار تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا: ’’بنو اسرائیل برہنہ نہاتے تھے، ایک دوسرے کی شرم گاہ کو دیکھ رہے ہوتے، اور موسیٰ عَلیہِ السَّلام اکیلے نہاتے، اسرائیلی کنے لگے، اللہ کی قسم ! موسیٰ عَلیہِ السَّلام ہمارے ساتھ محض اس بنا پر نہیں نہاتے کہ ان کو ہرنیا کی بیماری ہے، آپﷺ نے فرمایا: موسیٰ عَلیہِ السَّلام ایک دفعہ نہانے لگے تو اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیئے پتھر آپﷺ کے کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا، اور موسیٰ عَلیہِ السَّلام اس کے پیچھے (سرپٹ) زور سے دوڑ پڑے، اور فرمانے لگے، اے پتھر میرے کپڑے، اے پتھر میرے کپڑے دو، یہاں تک کہ بنو اسرائیل نے موسیٰ عَلیہِ السَّلام کے قابل ستر حصہ کو دیکھ لیا، اور کہنے لگے، اللہ کی قسم ! موسیٰ عَلیہِ السَّلام کو تو کوئی بیماری لاحق نہیں ہے، جب موسیٰ عَلیہِ السَّلام کا سراپا دیکھ لیا تو پتھر ٹھر گیا، موسیٰ عَلیہِ السَّلام نے اپنے کپڑے پہنے اور پتھر کو مارنا شروع کردیا۔‘‘ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! موسیٰ عَلیہِ السَّلام کے پتھر کو مارنے سے اس پر چھ یا سات نشان پڑھ گئے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) سَوءَة: شرم گاہ۔ آدر: جس کے خصیتین پھولے ہوں۔ (2) جَمَحَ: سرپٹ دوڑا۔ (3) ندب: نشان۔
فوائد ومسائل
(1) انسان تنہائی میں برہنہ ہو کر غسل کر سکتا ہے اگرچہ بہتر یہی ہے کپڑا باندھ کر نہائے کیونکہ کوئی اچانک آ سکتا ہے اگر غسل خانہ وغیرہ ہو جہاں کسی کے آنے کا خطرہ نہ ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ (2) انبیا علیہ السلام اپنی سیرت اور صورت دونوں اعتبار سے کامل ترین فرد ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو عیوب و نقائص سے پاک رکھتا ہے انبیاء علیہ السلام بشر ہونے کی بنا پر انسانی جذبات سے متصف ہوتے ہیں اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے غصہ میں آ کر پتھر پر ضربیں لگائیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی عزت و آبرو کی براءت کی خاطر پتھر میں خود بخود دوڑنے کی اہلیت پیدا کر دی جیسا کہ اس کے حکم سے زمین ، اپنے محور پر حرکت کر رہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Amongst the traditions narrated from Muhammad, the Messenger of Allah (ﷺ) on the authority of Abu Hurairah (RA) , the one is that Banu Isra'il used to take a bath naked, and they looked at the private parts of one another. Moses (ؑ) (peace be upon him), however, took a bath alone (in privacy); and they said (tauntingly): By Allah, nothing prohibits Moses (ؑ) to take a bath along with us, but sacrotal hernia. He ( Moses (ؑ)) once went for a bath and placed his clothes on a stone and the stone moved on with his clothes. Moses (ؑ) ran after it saying: O stone, my clothes,O stone, my clothes, and Banu Isra'il had the chance to see the private parts of Moses (ؑ), and said: By Allah, Moses (ؑ) does not suffer from any ailment. The stone then stopped, till Moses (ؑ) had been seen by them, and he then took hold of his clothes and struck the stone. Abu Hurairah (RA) said: By Allah, there are the marks of six or seven strokes made by Moses (ؑ) on the stone.