قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: کِتَابُ فَضَائِلِ القُرآنِ وَمَا يُتَعَلَّقُ بِهِ (بَابُ إِسْلَامِ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

832. حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو عَمَّارٍ وَيَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ عِكْرِمَةُ وَلَقِيَ شَدَّادٌ أَبَا أُمَامَةَ وَوَاثِلَةَ وَصَحِبَ أَنَسًا إِلَى الشَّامِ وَأَثْنَى عَلَيْهِ فَضْلًا وَخَيْرًا عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ السُّلَمِيُّ كُنْتُ وَأَنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَظُنُّ أَنَّ النَّاسَ عَلَى ضَلَالَةٍ وَأَنَّهُمْ لَيْسُوا عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَعْبُدُونَ الْأَوْثَانَ فَسَمِعْتُ بِرَجُلٍ بِمَكَّةَ يُخْبِرُ أَخْبَارًا فَقَعَدْتُ عَلَى رَاحِلَتِي فَقَدِمْتُ عَلَيْهِ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَخْفِيًا جُرَءَاءُ عَلَيْهِ قَوْمُهُ فَتَلَطَّفْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ بِمَكَّةَ فَقُلْتُ لَهُ مَا أَنْتَ قَالَ أَنَا نَبِيٌّ فَقُلْتُ وَمَا نَبِيٌّ قَالَ أَرْسَلَنِي اللَّهُ فَقُلْتُ وَبِأَيِّ شَيْءٍ أَرْسَلَكَ قَالَ أَرْسَلَنِي بِصِلَةِ الْأَرْحَامِ وَكَسْرِ الْأَوْثَانِ وَأَنْ يُوَحَّدَ اللَّهُ لَا يُشْرَكُ بِهِ شَيْءٌ قُلْتُ لَهُ فَمَنْ مَعَكَ عَلَى هَذَا قَالَ حُرٌّ وَعَبْدٌ قَالَ وَمَعَهُ يَوْمَئِذٍ أَبُو بَكْرٍ وَبِلَالٌ مِمَّنْ آمَنَ بِهِ فَقُلْتُ إِنِّي مُتَّبِعُكَ قَالَ إِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ يَوْمَكَ هَذَا أَلَا تَرَى حَالِي وَحَالَ النَّاسِ وَلَكِنْ ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ فَإِذَا سَمِعْتَ بِي قَدْ ظَهَرْتُ فَأْتِنِي قَالَ فَذَهَبْتُ إِلَى أَهْلِي وَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَكُنْتُ فِي أَهْلِي فَجَعَلْتُ أَتَخَبَّرُ الْأَخْبَارَ وَأَسْأَلُ النَّاسَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ حَتَّى قَدِمَ عَلَيَّ نَفَرٌ مِنْ أَهْلِ يَثْرِبَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةَ فَقُلْتُ مَا فَعَلَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَقَالُوا النَّاسُ إِلَيْهِ سِرَاعٌ وَقَدْ أَرَادَ قَوْمُهُ قَتْلَهُ فَلَمْ يَسْتَطِيعُوا ذَلِكَ فَقَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَعْرِفُنِي قَالَ نَعَمْ أَنْتَ الَّذِي لَقِيتَنِي بِمَكَّةَ قَالَ فَقُلْتُ بَلَى فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَخْبِرْنِي عَمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ وَأَجْهَلُهُ أَخْبِرْنِي عَنْ الصَّلَاةِ قَالَ صَلِّ صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْصِرْ عَنْ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَتَّى تَرْتَفِعَ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ ثُمَّ صَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى يَسْتَقِلَّ الظِّلُّ بِالرُّمْحِ ثُمَّ أَقْصِرْ عَنْ الصَّلَاةِ فَإِنَّ حِينَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ فَإِذَا أَقْبَلَ الْفَيْءُ فَصَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ ثُمَّ أَقْصِرْ عَنْ الصَّلَاةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ قَالَ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَالْوُضُوءَ حَدِّثْنِي عَنْهُ قَالَ مَا مِنْكُمْ رَجُلٌ يُقَرِّبُ وَضُوءَهُ فَيَتَمَضْمَضُ وَيَسْتَنْشِقُ فَيَنْتَثِرُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا وَجْهِهِ وَفِيهِ وَخَيَاشِيمِهِ ثُمَّ إِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا وَجْهِهِ مِنْ أَطْرَافِ لِحْيَتِهِ مَعَ الْمَاءِ ثُمَّ يَغْسِلُ يَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا يَدَيْهِ مِنْ أَنَامِلِهِ مَعَ الْمَاءِ ثُمَّ يَمْسَحُ رَأْسَهُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا رَأْسِهِ مِنْ أَطْرَافِ شَعْرِهِ مَعَ الْمَاءِ ثُمَّ يَغْسِلُ قَدَمَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا رِجْلَيْهِ مِنْ أَنَامِلِهِ مَعَ الْمَاءِ فَإِنْ هُوَ قَامَ فَصَلَّى فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَمَجَّدَهُ بِالَّذِي هُوَ لَهُ أَهْلٌ وَفَرَّغَ قَلْبَهُ لِلَّهِ إِلَّا انْصَرَفَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ فَحَدَّثَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَبَا أُمَامَةَ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ أَبُو أُمَامَةَ يَا عَمْرَو بْنَ عَبَسَةَ انْظُرْ مَا تَقُولُ فِي مَقَامٍ وَاحِدٍ يُعْطَى هَذَا الرَّجُلُ فَقَالَ عَمْرٌو يَا أَبَا أُمَامَةَ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي وَرَقَّ عَظْمِي وَاقْتَرَبَ أَجَلِي وَمَا بِي حَاجَةٌ أَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ وَلَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا حَتَّى عَدَّ سَبْعَ مَرَّاتٍ مَا حَدَّثْتُ بِهِ أَبَدًا وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ

مترجم:

832.

ابو عمار شداد بن عبداللہ اور یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو امامہ سے روایت کی۔ عکرمہ نے کہا: شداد ابو امامہ اور واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مل چکا ہے، وہ شام کے سفر میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہا اور ان کی فضیلت اور خوبی کی تعریف کی۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: عمرو بن عبسہ سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا: میں جب اپنے جاہلیت کے دور میں تھا تو (یہ بات) سمجھتا تھا کہ لوگ گمراہ ہیں اور جب وہ بتوں کی عبادت کرتے ہیں تو کسی (سچی) چیز (دین) پر نہیں، پھر میں نے مکہ کے ایک آدمی کے بارے میں سنا کہ وہ بہت سی باتوں کی خبر دیتا ہے، میں اپنی سواری پر بیٹھا اور ان کے پاس آ گیا، اس زمانے میں رسول اللہ ﷺ چھپے ہوئے تھے، آپﷺ کی قوم (کے لوگ) آپﷺ کے خلاف دلیر، اور جری تھے۔ میں ایک لطیف تدبیر اختیار کر کے مکہ میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ سے پوچھا آپ کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نبی ہوں۔‘‘ پھر میں نے پوچھا: نبی کیا ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اللہ نے بھیجا ہے۔‘‘ میں نے کہا: آپ کو کیا (پیغام ) دے کر بھیجا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ مجھے صلہ رحمی، بتوں کو توڑنے، اللہ تعالیٰ کو ایک قرار دینے، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے (کا پیغام) دے کر بھیجا ہے۔‘‘ میں نے آپﷺ سے پوچھا: آپ کے ساتھ اس (دین) پر اور کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک آزاد اور ایک غلام۔‘‘ کہا: آپ ﷺ کے ساتھ اس وقت ایمان لانے والوں میں سے ابو بکر اور بلال رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے۔ میں نے کہا: میں بھی آپﷺ کا متبع ہوں۔ فرمایا: ’’تم اپنے آج کل کے حالات میں ایسا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ کیا تم میرا اور لوگوں کا حال نہیں دیکھتے؟لیکن (ان حالات میں) تم اپنے گھر کی طرف لوٹ جاؤ اور جب میرے بارے میں سنو کہ میں غالب آ گیا ہوں تو میرے پاس آ جانا۔‘‘ کہا: تو میں اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ گیا۔ اور (بعد ازاں) رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لے گئے میں اپنے گھر ہی میں تھا، جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے۔ تو میں بھی خبریں لینے اور لوگوں سے آپﷺ کے حالات پوچھنے میں لگ گیا۔ حتیٰ کہ میرے پاس اہل یثرب (مدینہ والوں) میں سے کچھ لوگ آئے تو میں نے پوچھا: یہ شخص جو مدینہ میں آیا ہے اس نے کیا کچھ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: لوگ تیزی سے ان (کے دین) کی طرف بڑھ رہے ہیں، آپﷺ کی قوم نے آپ کو قتل کرنا چاہا تھا لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔ اس پر میں مدینہ آیا اور آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں تم وہی ہو ناں جو مجھ سے مکہ میں ملے تھے؟‘‘ کہا: تو میں نے عرض کی: جی ہاں، اور پھر پوچھا: اے اللہ کے نبی! مجھے وہ (سب) بتایئے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے اور میں اس سے ناواقف ہوں، مجھے نماز کے بارے میں بتایئے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’صبح کی نماز پڑھو اور پھر نماز سے رک جاؤ حتیٰ کہ سورج نکل کر بلند ہو جائے کیونکہ وہ جب طلوع ہوتا ہے تو شیطان (اپنے سینگوں کو آگے کر کے یوں دیکھاتا ہے جیسے وہ اُس) کے دو سینگوں کےدرمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس (سورج) کو سجدہ کرتے ہیں، اس کے بعد نماز پڑھو کیونکہ نماز کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اس میں (فرشتے) حاضر ہوتے ہیں یہاں تک کہ جب نیزے کا سایہ اس کے ساتھ لگ جائے (سورج بالکل سر پر آ جائے) تو پھر نماز سے رک جاؤ کیونکہ اس وقت جہنم کو ایندھن سے بھر کر بھڑکایا جاتا ہے، پھر جب سایہ آئے جائے (سورج ڈھل جائے) تو نمازپڑھو کیونکہ نماز کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور اس میں حاضری دی جاتی ہے حتیٰ کہ تم عصر سے فارغ ہو جاؤ، پھر نماز سے رک جاؤ یہاں تک کہ سورج (پوری طرح) غروب ہو جائے کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں میں غروب ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔‘‘ کہا: پھر میں نے پوچھا: اے اللہ کے نبی ﷺ! تو وضو؟ مجھے اس کے بارے میں بھی بتایئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جوشخص بھی وضو کے لئے پانی اپنے قریب کرتا ہے۔ پھر کلی کرتا ہے اور ناک میں پانی کھینچ کر اسے جھاڑتا ہے تو اس سے اس کے چہرے، منہ، اور ناک کے نتھنوں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں، پھر جب وہ اللہ کے حکم کےمطابق اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو لازماً اس کے چہرے کےگناہ بھی پانی کے ساتھ اس کی داڑھی کے کناروں سے گر جاتے ہیں، پھر وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں (کے اوپر) تک دھوتا ہے۔ تو لازماً اس کے ہاتھوں کے گناہ پانی کے ساتھ اس کے پوروں سے گر جاتے ہیں، پھر وہ سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر کے گناہ پانی کے ساتھ اس کے بالوں کے اطراف سے زائل ہو جاتے ہیں، پھر وہ ٹخنوں (کے اوپر) تک اپنے دونوں قدم دھوتا ہے۔ تو اس کے دونوں پاؤں کے گناہ پانی کے ساتھ اس کے پوروں سے گر جاتے ہیں،پھر اگر وہ کھڑا ہوا نماز پڑھی اور اللہ کے شایان شان اس کی حمد وثنا اور بزرگی بیان کی اور اپنا دل اللہ کے لئے (ہر قسم کے دوسرے خیالات وتصورات سے) خالی کر لیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکلتا ہے جس طرح اس وقت تھا جس دن اس کی ماں نے اسے (ہر قسم کے گناہوں سے پاک) جنا تھا۔‘‘ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے (ایک اور) صحابی حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سنائی تو ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا: اے عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ !دیکھ لو تم کیا کہہ رہے ہو۔ ایک ہی جگہ اس آدمی کو اتنا کچھ عطا کر  دیا جاتا ہے! اس پر عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میری عمر بڑھ گئی ہے میری ہڈیاں نرم ہو گئیں ہیں اور میری موت کا وقت بھی قریب آ چکا ہے اور مجھے کوئی ضرورت نہیں کہ اللہ پر جھوٹ بولوں۔ اور اس کے رسول ﷺ پر جھوٹ بولوں۔ اگر میں نے اس حدیث کو رسول اللہ ﷺ سے ایک، دو، تین۔۔۔ حتیٰ کہ انھوں نے سات بار شمار کیا۔ بار نہ سنا ہوتا تو میں اس حدیث کو کبھی بیان نہ کرتا بلکہ میں نے تو اسے آپ ﷺ سے اس سے بھی زیادہ بار سنا ہے۔