Muslim:
The Book of Menstruation
(Chapter: Tayammum)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
836.
عبد الرحمان بن قاسم (بن محمد) نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کیا، کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ایک سفر میں آپ ﷺ کے ساتھ نکلے، جب ہم بیداء یا ذات الجیش کے مقام پر پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا، رسول اللہ ﷺ اس کی تلاش کی خاطر ٹھہر گئے، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ رک گئے، نہ وہ پانی (والی جگہ) پر تھے نہ ان کے پاس پانی (بچا ہوا) تھا۔ لوگ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور کہا: کیا آپ کو پتہ نہیں، عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کیا کیا ہے؟ رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے ساتھ (دوسرے) لوگوں کو روک رکھا ہے، نہ وہ پانی (والی جگہ) پر ہیں اور نہ لوگوں کے پاس پانی بچا ہے۔ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے (اس وقت) رسول اللہ ﷺ میری ران پر سر رکھ کر سو چکے تھے اور کہا: تم نے رسول اللہﷺ کو اور آپ کے ساتھیوں کو روک رکھا ہے جبکہ نہ وہ پانی والی جگہ پر ہیں اور نہ ان کے پاس پانی ہے۔ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا: حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے ڈانٹا اور جو کچھ اللہ کو منظور تھا کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگانے لگے، مجھے صرف اس بات نے حرکت کرنے سے روکے رکھا کہ رسو ل اللہ ﷺ کا سر میری ران پر تھا، رسول اللہﷺ سوئے رہے اور پانی کے بغیر ہی صبح ہو گی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے تیمم کیا۔ اسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ نے، جو نقباء میں سے تھے، کہا: اے ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے خاندان! یہ آپ کی پہلی برکت نہیں ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: ہم نے اس اونٹ کو جس پر میں سوار تھی اٹھایا تو ہمیں اس کے نیچے سے ہار مل گیا۔
حیض : وہ خون ہے جو بلوغت سے لے کر سن یاس تک عورت کو تقریبا چار ہفتے کے وقفے سے ہر ماہ آتا ہے اور دوران حمل اور عموما رضاعت کے زمانے میں بند ہو جاتا ہے۔ ایک حیض سے لے کر دوسرے حیض تک کے عرصے کو شریعت میں ’’طُهْر‘‘ کہتے ہیں۔
اسلام سے پہلے زیادہ تر انسانی معاشرے اس حوالے سے جہالت اور توہمات کا شکار تھے۔ یہودان ایام میں عورت کو انتہائی نجس اور غلیظ سمجھتے۔ جس چیز کو اس کا ہاتھ لگتا اسے بھی پلید سمجھتے ۔ اسے سونے کے کمروں اور باورچی خانے وغیرہ سے دور رہنا پڑتا۔ نصاریٰ بھی مذہبی طور پر یہودیوں سے متفق تھے۔ ان کے ہاں بھی حیض کے دوران میں عورت انتہائی نجس تھی اور جو کوئی اس کو چھو لیتا وہ بھی نجس سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ان کی اکثریت عملا عہد نامہ قدیم کے احکامات پرعمل نہ کرتی تھی بلکہ وہ دوسری انتہا پر تھی۔ عام عیسائی اس دوران میں بھی عورتوں سے مقاربت کر لیتے تھے۔
صحابہ کرام نے اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا۔ اس کے جواب میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾ ’’اور (لوگ) آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بتا دیجیے یہ اذیت ( کا زمانہ ہے)، اس لیے محیض (زمانہ حیض یا جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے اس مقام میں) عورتوں سے( جماع کرنے سے) دور رہو اور ان سے مقاربت نہ کرو یہاں تک کہ وہ حالت طہر میں آجائیں (حیض کے ایام ختم ہو جائیں)، پھر جب وہ پاک صاف ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ، جہاں سے اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے، اللہ (اپنی طرف) رجوع کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“ ((البقرۃ 222:2) اس آیت میں اللہ تعالی نے محیض کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ مصدر بھی ہے اور اسم ظرف بھی۔ مصدر ہو تو وہی معنی ہیں جو حیض کے ہیں، لیکن مخصوص ایام میں عورتوں کو خون آنا، یعنی اس کے دوران احتراز کرو۔ اسم ظرف ہو تو ظرف زمانی کی حیثیت سے معنی ہوں گے: حیض کا زمانہ مفہوم یہ ہو گا کہ حیض کے دنوں میں بیویوں کے ساتھ جنسی مقاربت ممنوع ہے۔ ظرف مکان کی حیثیت سےمحیض سے مراد وہ جگہ ہوگی جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے۔ ظرف مکان مراد لیتے ہوئے لسان العرب میں اس آیت کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے:ان المحيض فى هذاالاية الماتى من المراة لانه موضع الحيض فكانه قال:اعتزلوا النساءفى موضع الحيض ،لاتجامعوهن فى ذلك المكان.
اس آیت میں محیض سے عورت کے جسم )کا وہ حصہ مراد ہے جہاں مجامعت کی جاتی ہے کیونکہ یہی حیض ( کے اخراج کی (بھی) جگہ ہے۔ گویا یہ فرمایا: حیض ( کے اخراج) کی جگہ میں عورتوں( کے ساتھ مباشرت) سے دور رہو، اس جگہ ان کے ساتھ جماع نہ کرو۔‘‘
حیض کا جو بھی معنی میں مفہوم یہی ہے کہ ان دنوں میں بیویوں سے صنفی تعلقات سے پرہیز کیا جائے لیکن، اس باب کی احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو ساتھ رکھا جائے، ان کی طرف التفات اور توجہ کو برقرار رکھا جائے۔
قرآن نے عورتوں کی اس فطری حالت کے بارے میں تمام جاہلانہ افکار کی تردید کر دی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے فطری
معاملہ ہونے کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا: «هذا شيء كتبه الله على بنات آدم) (صحيح البخارى ،الحيض ،باب كيف كان بدءالحيض ،قبل الحديث:294)یہ ایسی چیز ہے کہ آدم کی بیٹیوں کے بارے میں اللہ نے اس کا فیصلہ فرمایا ہے۔‘‘ قرآن کے الفاظ( و هو اذی )کے معنی ہیں: یہ ادنی اذیت (کم درجے کی تکلیف کا زمانہ)ہے۔ عورت کو یہ اذیت جسمانی تبدیلیوں ، نفسیاتی کیفیت، ناپاک خون اور اس کی بدبو کی وجہ سے پہنچتی ہے۔ اسلام نے اس فطری تکلیف کے زمانے میں عورتوں کو سہولت دیتے ہوئے نماز معاف کر دی اور رمضان کے روزے کے لیے وہی سہولت دی جو مریض کو دی جاتی ہے۔ یعنی ان دنوں میں وہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں اپنے روزے پورے کر لے۔
موجودہ میڈیکل سائنس نے بھی اب اسی بات کی شہادت مہیا کر دی ہے کہ ان دنوں میں خواتین بے آرامی، اضطراب اور ہلکی تکلیف کا شکار رہتی ہیں ۔ سنجیدہ قسم کے فرائض ادا کرنے میں انھیں دقت پیش آتی ہے، اس لیے جہاں وہ ملازمت کرتی ہیں ان اداروں کا فرض ہے کہ ان ایام میں عورتوں کے فرائض کی ادائیگی میں سہولت مہیا کریں۔ وہ سہولت کیا ہو؟ روشن خیالی اور حقوق نسواں کا لحاظ کرنے کے دعووں کے باوجود مغربی تہذیب ابھی تک ایسی کسی سہولت کے بارے میں سوچنے سے معذور ہے جبکہ اسلام نے ، جودین فطرت ہے، پہلے ہی ان کے فرائض میں تخفیف کر دی۔
تکلیف اور اضطراب کی اس حالت میں گھر کے دوسرے افراد بالخصوص خاوند کی طرف سے کراہت اور نفرت کا اظہار نفسیاتی طور پر عورت کے لیے شدید تکلیف اور پریشانی کا باعث بن جاتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے خلاف یہودیوں اور دیگر جاہل معاشروں کے ظالمانہ رویے کا ازالہ کیا اور یہ اہتمام فرمایا کہ خاوند کے ساتھ اس کے جنسی تعلقات تو منقطع ہو جائیں، کیونکہ وہ عورت کے لیے مزید تکلیف کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن عورت اس دوران میں باقی معاملات میں گھر والوں بالخصوص خاوند کی بھر پور توجہ اور محبت کا مرکز رہے۔ صحیح مسلم کی کتاب الحیض کے آغاز کے ابواب میں اس اہتمام کی تفصیلات مذکور ہیں۔
آگے کے ابواب میں مردوں اور عورتوں کے نجی زندگی کے مختلف احوال کے دوران میں عبادت کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ عورتوں کے خصوصی ایام کے ساتھ متصل یا ملتی جلتی بعض بیماریوں اور ولادت کے عرصے کے دوران میں طہارت کے مسائل بھی کتاب الحیض کا حصہ ہیں۔
عبد الرحمان بن قاسم (بن محمد) نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کیا، کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ایک سفر میں آپ ﷺ کے ساتھ نکلے، جب ہم بیداء یا ذات الجیش کے مقام پر پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا، رسول اللہ ﷺ اس کی تلاش کی خاطر ٹھہر گئے، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ رک گئے، نہ وہ پانی (والی جگہ) پر تھے نہ ان کے پاس پانی (بچا ہوا) تھا۔ لوگ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور کہا: کیا آپ کو پتہ نہیں، عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کیا کیا ہے؟ رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے ساتھ (دوسرے) لوگوں کو روک رکھا ہے، نہ وہ پانی (والی جگہ) پر ہیں اور نہ لوگوں کے پاس پانی بچا ہے۔ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے (اس وقت) رسول اللہ ﷺ میری ران پر سر رکھ کر سو چکے تھے اور کہا: تم نے رسول اللہﷺ کو اور آپ کے ساتھیوں کو روک رکھا ہے جبکہ نہ وہ پانی والی جگہ پر ہیں اور نہ ان کے پاس پانی ہے۔ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا: حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے ڈانٹا اور جو کچھ اللہ کو منظور تھا کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگانے لگے، مجھے صرف اس بات نے حرکت کرنے سے روکے رکھا کہ رسو ل اللہ ﷺ کا سر میری ران پر تھا، رسول اللہﷺ سوئے رہے اور پانی کے بغیر ہی صبح ہو گی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے تیمم کیا۔ اسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ نے، جو نقباء میں سے تھے، کہا: اے ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے خاندان! یہ آپ کی پہلی برکت نہیں ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: ہم نے اس اونٹ کو جس پر میں سوار تھی اٹھایا تو ہمیں اس کے نیچے سے ہار مل گیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بتایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی سفر میں نکلے جب ہم مقام بیداء یا ذات الحبیش پر پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا تو رسول اللہ ﷺ اس کی تلاش کی خاطر ٹھر گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم بھی آپ کے ساتھ رک گئے، اس جگہ پانی نہ تھا، اور لوگوں کے پاس بھی (پہلے سے) موجود نہ تھا۔ لوگ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے، اور کہا ، کیا آپ کو پتہ نہیں، عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کیا کیا؟ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھ لوگوں کو روک رکھا ہے، نہ اس جگہ پانی ہے اور نہ ہی لوگوں کے پاس پانی موجود ہے، ابو بکر اس حالت میں تشریف لائے کہ رسول اللہ ﷺ میری ران پر سر رکھ کر سو چکے تھے، اور کہا تو نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو روک رکھا ہے جبکہ یہاں پانی نہیں ہے اور لوگوں کے پاس بھی پانی نہیں۔ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ، ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے ڈانٹا اور جو کچھ اللہ کو منظور تھا کہا، اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگانے لگے، اور مجھے صرف اس چیز نے حرکت کرنے سے روکے رکھا کہ رسول اللہ ﷺ کا سر میری ران پر رکھا ہوا تھا، رسول اللہ ﷺ پانی کے بغیر ہی صبح تک سوئے رہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمّم کی آیت اتاری تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے تیمّم کیا۔ اسید بن حضیر جو نقباء میں سے ہیں، نے کہا اے ابو بکر کی اولاد! یہ آپ کی پہلی برکت نہیں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا، ہم نے اس اونٹ کو جس پر میں سوار تھی اٹھایا تو ہمیں اس کے نیچے سے ہار مل گیا۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1)نقباء: نقيب کی جمع ہے، ذمہ دار، نگران ومحافظ۔ (2)عقد: ہار۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha reported: We went with the Apostle of Allah (ﷺ) on one of his journeys and when we reached the place Baida' or Dhat al-jaish, my necklace was broken (and fell somewhere). The Messenger of Allah (ﷺ) along with other people stayed there searching for it. There was neither any water at that place nor was there any water with them (the Companions of the Holy Prophet). Some persons came to my father Abu Bakr (RA) and said: Do you see what 'A'isha has done? She has detained the Messenger of Allah (ﷺ) and persons accompanying him, and there is neither any water here or with them. So Abu Bakr (RA) came there and the Messenger of Allah (ﷺ) was sleeping with his head on my thigh. He (Abu Bakr) said: You have detained the Messenger of Allah (ﷺ) and other persons and there is neither water here nor with them. She ('A'isha) said: Abu Bakr (RA) scolded me and uttered what Allah wanted him to utter and nudged my hips with his hand. And there was nothing to prevent me from stirring but for the fact that the Messenger of Allah (ﷺ) was lying upon my thigh. The Messenger of Allah (ﷺ) slept till it was dawn at a waterless place. So Allah revealed the verses pertaining to tayammum and they (the Holy Prophet (ﷺ) and his Companions) performed tayammum. Usaid bin al-Hudair who was one of the leaders said: This is not the first of your blessings, O Family to Abu Bakr. 'A'isha said: We made the camel stand which was my mount and found the necklace under it.