Muslim:
The Book of Menstruation
(Chapter: Tayammum)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
837.
ہشام کے والد عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کیا کہ انہوں نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے عاریتاً ہار لیا، وہ گم ہو گیا تو رسول اللہﷺ نے اپنے کچھ ساتھیوں کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا۔ ان کی نماز کا وقت آ گیا تو انہوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھ لی اور جب نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سے اس بات کی شکایت کی، (اس پر) تیمم کی آیت اتری تو اسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ نے (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے) کہا: اللہ آپ کو بہترین جزا دے، اللہ کی قسم! آپ کو کبھی کوئی مشکل معاملہ پیش نہیں آیا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اس سے نکلنے کی سبیل پیدا کر دی اور اسی میں مسلمانوں کے لیے برکت رکھ کر دی۔
حیض : وہ خون ہے جو بلوغت سے لے کر سن یاس تک عورت کو تقریبا چار ہفتے کے وقفے سے ہر ماہ آتا ہے اور دوران حمل اور عموما رضاعت کے زمانے میں بند ہو جاتا ہے۔ ایک حیض سے لے کر دوسرے حیض تک کے عرصے کو شریعت میں ’’طُهْر‘‘ کہتے ہیں۔
اسلام سے پہلے زیادہ تر انسانی معاشرے اس حوالے سے جہالت اور توہمات کا شکار تھے۔ یہودان ایام میں عورت کو انتہائی نجس اور غلیظ سمجھتے۔ جس چیز کو اس کا ہاتھ لگتا اسے بھی پلید سمجھتے ۔ اسے سونے کے کمروں اور باورچی خانے وغیرہ سے دور رہنا پڑتا۔ نصاریٰ بھی مذہبی طور پر یہودیوں سے متفق تھے۔ ان کے ہاں بھی حیض کے دوران میں عورت انتہائی نجس تھی اور جو کوئی اس کو چھو لیتا وہ بھی نجس سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ان کی اکثریت عملا عہد نامہ قدیم کے احکامات پرعمل نہ کرتی تھی بلکہ وہ دوسری انتہا پر تھی۔ عام عیسائی اس دوران میں بھی عورتوں سے مقاربت کر لیتے تھے۔
صحابہ کرام نے اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا۔ اس کے جواب میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾ ’’اور (لوگ) آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بتا دیجیے یہ اذیت ( کا زمانہ ہے)، اس لیے محیض (زمانہ حیض یا جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے اس مقام میں) عورتوں سے( جماع کرنے سے) دور رہو اور ان سے مقاربت نہ کرو یہاں تک کہ وہ حالت طہر میں آجائیں (حیض کے ایام ختم ہو جائیں)، پھر جب وہ پاک صاف ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ، جہاں سے اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے، اللہ (اپنی طرف) رجوع کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“ ((البقرۃ 222:2) اس آیت میں اللہ تعالی نے محیض کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ مصدر بھی ہے اور اسم ظرف بھی۔ مصدر ہو تو وہی معنی ہیں جو حیض کے ہیں، لیکن مخصوص ایام میں عورتوں کو خون آنا، یعنی اس کے دوران احتراز کرو۔ اسم ظرف ہو تو ظرف زمانی کی حیثیت سے معنی ہوں گے: حیض کا زمانہ مفہوم یہ ہو گا کہ حیض کے دنوں میں بیویوں کے ساتھ جنسی مقاربت ممنوع ہے۔ ظرف مکان کی حیثیت سےمحیض سے مراد وہ جگہ ہوگی جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے۔ ظرف مکان مراد لیتے ہوئے لسان العرب میں اس آیت کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے:ان المحيض فى هذاالاية الماتى من المراة لانه موضع الحيض فكانه قال:اعتزلوا النساءفى موضع الحيض ،لاتجامعوهن فى ذلك المكان.
اس آیت میں محیض سے عورت کے جسم )کا وہ حصہ مراد ہے جہاں مجامعت کی جاتی ہے کیونکہ یہی حیض ( کے اخراج کی (بھی) جگہ ہے۔ گویا یہ فرمایا: حیض ( کے اخراج) کی جگہ میں عورتوں( کے ساتھ مباشرت) سے دور رہو، اس جگہ ان کے ساتھ جماع نہ کرو۔‘‘
حیض کا جو بھی معنی میں مفہوم یہی ہے کہ ان دنوں میں بیویوں سے صنفی تعلقات سے پرہیز کیا جائے لیکن، اس باب کی احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو ساتھ رکھا جائے، ان کی طرف التفات اور توجہ کو برقرار رکھا جائے۔
قرآن نے عورتوں کی اس فطری حالت کے بارے میں تمام جاہلانہ افکار کی تردید کر دی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے فطری
معاملہ ہونے کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا: «هذا شيء كتبه الله على بنات آدم) (صحيح البخارى ،الحيض ،باب كيف كان بدءالحيض ،قبل الحديث:294)یہ ایسی چیز ہے کہ آدم کی بیٹیوں کے بارے میں اللہ نے اس کا فیصلہ فرمایا ہے۔‘‘ قرآن کے الفاظ( و هو اذی )کے معنی ہیں: یہ ادنی اذیت (کم درجے کی تکلیف کا زمانہ)ہے۔ عورت کو یہ اذیت جسمانی تبدیلیوں ، نفسیاتی کیفیت، ناپاک خون اور اس کی بدبو کی وجہ سے پہنچتی ہے۔ اسلام نے اس فطری تکلیف کے زمانے میں عورتوں کو سہولت دیتے ہوئے نماز معاف کر دی اور رمضان کے روزے کے لیے وہی سہولت دی جو مریض کو دی جاتی ہے۔ یعنی ان دنوں میں وہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں اپنے روزے پورے کر لے۔
موجودہ میڈیکل سائنس نے بھی اب اسی بات کی شہادت مہیا کر دی ہے کہ ان دنوں میں خواتین بے آرامی، اضطراب اور ہلکی تکلیف کا شکار رہتی ہیں ۔ سنجیدہ قسم کے فرائض ادا کرنے میں انھیں دقت پیش آتی ہے، اس لیے جہاں وہ ملازمت کرتی ہیں ان اداروں کا فرض ہے کہ ان ایام میں عورتوں کے فرائض کی ادائیگی میں سہولت مہیا کریں۔ وہ سہولت کیا ہو؟ روشن خیالی اور حقوق نسواں کا لحاظ کرنے کے دعووں کے باوجود مغربی تہذیب ابھی تک ایسی کسی سہولت کے بارے میں سوچنے سے معذور ہے جبکہ اسلام نے ، جودین فطرت ہے، پہلے ہی ان کے فرائض میں تخفیف کر دی۔
تکلیف اور اضطراب کی اس حالت میں گھر کے دوسرے افراد بالخصوص خاوند کی طرف سے کراہت اور نفرت کا اظہار نفسیاتی طور پر عورت کے لیے شدید تکلیف اور پریشانی کا باعث بن جاتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے خلاف یہودیوں اور دیگر جاہل معاشروں کے ظالمانہ رویے کا ازالہ کیا اور یہ اہتمام فرمایا کہ خاوند کے ساتھ اس کے جنسی تعلقات تو منقطع ہو جائیں، کیونکہ وہ عورت کے لیے مزید تکلیف کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن عورت اس دوران میں باقی معاملات میں گھر والوں بالخصوص خاوند کی بھر پور توجہ اور محبت کا مرکز رہے۔ صحیح مسلم کی کتاب الحیض کے آغاز کے ابواب میں اس اہتمام کی تفصیلات مذکور ہیں۔
آگے کے ابواب میں مردوں اور عورتوں کے نجی زندگی کے مختلف احوال کے دوران میں عبادت کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ عورتوں کے خصوصی ایام کے ساتھ متصل یا ملتی جلتی بعض بیماریوں اور ولادت کے عرصے کے دوران میں طہارت کے مسائل بھی کتاب الحیض کا حصہ ہیں۔
ہشام کے والد عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کیا کہ انہوں نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے عاریتاً ہار لیا، وہ گم ہو گیا تو رسول اللہﷺ نے اپنے کچھ ساتھیوں کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا۔ ان کی نماز کا وقت آ گیا تو انہوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھ لی اور جب نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سے اس بات کی شکایت کی، (اس پر) تیمم کی آیت اتری تو اسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ نے (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے) کہا: اللہ آپ کو بہترین جزا دے، اللہ کی قسم! آپ کو کبھی کوئی مشکل معاملہ پیش نہیں آیا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اس سے نکلنے کی سبیل پیدا کر دی اور اسی میں مسلمانوں کے لیے برکت رکھ کر دی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ اس نے اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے عاریتہً ہار لیا، اور وہ ضائع ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے کچھ ساتھیوں کو اس کی تلاش کی خاطر بھیجا، انہیں نماز کے وقت نے آ لیا تو انہوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھ لی، اور جب نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس بات کی شکایت کی، اس پر تیمّم کی آیت اتری تو اسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، (اے عائشہ!) اللہ آپ کو بہترین اجر دے، اللہ کی قسم ! آپ کسی پریشانی میں مبتلا ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے اس سے نکلنے کی سبیل (راہ) پیدا کر دیتا ہے، اور وہ چیز مسلمانوں کے لیے باعث برکت بنتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
(1) اس حدیث سے ثابت ہے اگر کسی کو پانی اور مٹی دونوں میسر نہ ہوں تو وہ بلا وضو نماز پڑھ لے اور اس مسئلہ میں آئمہ کا اختلاف ہے۔ 1۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، اور اکثر محدثین کا خیال یہ ہے کہ بلا وضو نماز پڑھ لے، پھر جب پانی مل جائے تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز دوبارہ پڑھنی ہو گی۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، مزنی، سحنون اور ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے اور حدیث کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اعادہ کرنے کا حکم نہیں دیا۔ 2۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز پڑھنا ضروری ہے۔ (بقول شوکانی ) پھر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اعادہ نہیں ہے اور ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اعادہ ضروری ہے لیکن بقول مولانا شبیر احمد عثمانی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز نہیں پڑھے گا اور قضائی بھی نہیں دے گا، جیسا کہ حائضہ کا حکم ہے اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز نہیں پڑھے گا لیکن قضائی ضروری ہے اور صاحبین کے نزدیک نماز نہیں پڑھے گا۔ محض نمازیوں کی مشابہت اختیار کرے گا پھر قضائی ضروری ہو گی۔ 3۔ بلا وضو وقت پر نماز پڑھنا مستحب ہے اور بعد میں قضائی لازم بھی ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا فَاقِدُ الطہورین اس لیے قراردیا گیا ہے کہ پانی موجود نہیں تھا اور تیمم کا حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا اس لیے انھوں نے بلا وضو نماز پڑھ لی اور بعد میں آ کرآپ کو بتا دیا۔ (2) آپ نے اسید بن حضیر کو ہار کی تلاش کے لیے بھیجا ہار نہ ملا تو وہ واپس آ گئے صبح جب کوچ کے لیے اونٹ اٹھایا تو انہیں وہاں سے ہار مل گیا۔ (3) سفر میں پانی نہ ملے تو تیمم کرنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha reported she had borrowed from Asma' (her sister) a necklace and it was lost. The Messenger of Allah (ﷺ) sent men to search for it. As it was the time for prayer, they offered prayer without ablution (as water was not available there). When they came to the Messenger of Allah (ﷺ) , they made a complaint about it, and the verses pertaining to tayammum were revealed. Upon this Usaid bin Hadair said (to 'A'isha): May Allah grant you a good reward! Never has been there an occasion when you were beset with difficulty and Allah did not make you come out of that and made it an occasion of blessing for the Muslims.