قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابُ مَا يُقَالُ عِنْدَ دُخُولِ الْقُبُورِ وَالدُّعَاءِ لِأَهْلِهَا)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

974.01. و حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ فَقَالَتْ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي قُلْنَا بَلَى ح و حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ حَجَّاجًا الْأَعْوَرَ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ أُمِّي قَالَ فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا بَلَى قَالَ قَالَتْ لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَاءَهُ وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ فَاضْطَجَعَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَى إِثْرِهِ حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ فَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ فَقَالَ مَا لَكِ يَا عَائِشُ حَشْيَا رَابِيَةً قَالَتْ قُلْتُ لَا شَيْءَ قَالَ لَتُخْبِرِينِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي قُلْتُ نَعَمْ فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي ثُمَّ قَالَ أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ قَالَتْ مَهْمَا يَكْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ فَنَادَانِي فَأَخْفَاهُ مِنْكِ فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي فَقَالَ إِنَّ رَبَّكَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ قَالَتْ قُلْتُ كَيْفَ أَقُولُ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ قُولِي السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ

مترجم:

974.01.

عبداللہ بن وہب نے ہمیں حدیث سنائی اور کہا: ابن جریج نے عبداللہ بن کثیر بن مطلب سے روایت کی، انھوں نے محمد بن قیس بن مخرمہ بن مطلب (المطلبی) کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سنا، وہ حدیث بیان کر رہی تھیں، انھوں نے کہا: کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ اور اپنی طرف سے حدیث نہ سناؤں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں۔ اور حجاج بن محمد نے ہمیں حدیث سنائی،کہا: ہمیں ابن جریج نے حدیث سنائی، کہا: قریش کے ایک فرد عبداللہ نے محمد بن قیس بن مخرمہ بن مطلب سے روایت کی کہ ایک دن انھوں نے کہا: کیا میں تمھیں اپنی اور اپنی ماں کی طرف سے حدیث نہ سناؤں؟ کہا: ہم نے سمجھا کہ ان کی مراد اپنی اس ماں سے ہے جس نے انھیں جنم دیا (لیکن انھوں نے) کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: کیا میں تمھیں اپنی طرف سے اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے حدیث نہ سناؤں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں! کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:(ایک دفعہ) جب میری (باری کی) رات ہوئی جس میں نبی کریم ﷺ میرے ہاں تھے، آپﷺ (مسجد سے) لوٹے، اپنی چادر (سرہانے) رکھی، اپنے دونوں جوتے اتار کر اپنے دونوں پاؤں کے پاس رکھے اور اپنے تہبند کا ایک حصہ بستر پر بچھایا، پھر لیٹ گئے۔ آپﷺ نے صرف اتنی دیر انتظار کیا کہ آپﷺ نے خیال کیا میں سو گئی ہوں، تو آپﷺ نے آہستہ سے اپنی چادر اٹھائی، آہستہ سے اپنے جوتے پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھولا، نکلے، پھر آہستہ سے اس کو بند کر دیا۔ (یہ دیکھ کر) میں نے بھی اپنی قمیص سر سے گزاری (جلدی سے پہنی) اپنا دوپٹا اوڑھا اور اپنی آزار (کمر پر) باندھی، پھر آپﷺ کے پیچھے چل پڑی حتیٰ کہ آپﷺ بقیع (کے قبرستان میں ) پہنچے اور کھڑے ہو گئے اور آپﷺ لمبی دیر تک کھڑے رہے، پھر آپﷺ نے تین دفعہ ہاتھ اٹھائے، پھر آپﷺ پلٹے اور میں بھی واپس لوٹی، آپﷺ تیز ہو گئے تو میں بھی تیز ہو گئی، آپﷺ تیز تر ہو گئے تو میں بھی تیز تر ہو گئی۔ آپﷺ دوڑ کر چلے تو میں نے بھی دوڑنا شروع کر دیا۔ میں آپﷺ سے آگے نکل آئی اور گھر میں داخل ہو گئی۔ جونہی میں لیٹی آپ ﷺ بھی گھر میں داخل ہو گئے اور فرمایا: ’’عائشہ! تمھیں کیا ہوا کانپ رہی ہو؟ سانس چڑھی ہوئی ہے۔‘‘ میں نے کہا کوئی بات نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم مجھے بتاؤ گی یا پھر وہ مجھے بتائے گا جو لطیف وخبیر ہے (باریک بین ہے اور انتہائی باخبر) ہے۔‘‘میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! اور میں نے (پوری بات) آپﷺ کو بتا دی۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تو وہ سیاہ (ہیولا) جو میں نے اپنے آگے دیکھا تھا، تم تھیں؟‘‘ میں نے کہا: ہاں۔ آپﷺ نے میرے سینے کو زور سے دھکیلا جس سے مجھے تکلیف ہوئی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم نے یہ خیال کیا کہ اللہ تم پر زیادتی کرے گا اور اس کا رسول ﷺ ؟‘‘ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) کہا: لوگ (کسی بات کو) کتنا ہی چھپا لیں اللہ اس کو جانتا ہے، ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’جب تو نے (مجھے جاتے ہوئے) دیکھا تھا اس وقت جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے۔ انھوں نے(آ کر) مجھے آواز دی اور اپنی آواز کو تم سے مخفی رکھا، میں نے ان کو جواب دیا تو میں نے بھی تم سے اس کو مخفی رکھا اور وہ تمہارے پاس اندر نہیں آ سکتے تھے تم کپڑے اتار چکیں تھیں اور میں نے خیال کیا کہ تم سو چکی ہو تو میں نے تمھیں بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اور مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ تم (اکیلی) وحشت محسوس کرو گی۔ تو انھوں (جبرئیل علیہ السلام) نے کہا: آپﷺ کا رب آپﷺ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اہل بقیع کے پاس جائیں اور ان کے لئے بخشش کی دعا کریں۔‘‘ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) کہا: میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں ان کے حق میں (دعا کے لئے) کیسے کہوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم کہو، مومنوں اور مسلمانوں میں سے ان ٹھکانوں میں رہنے والوں پر سلامتی ہو، اللہ تعالیٰ ہم سے آگے جانے والوں اور بعد میں آنے والوں پر رحم کرے، اور ہم ان شاء اللہ ضرور تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔‘‘