باب: انھیں دینا جن کی اسلام پر تالیف قلب مقصود ہو اور اس شخص کا صبر سے کام لینا جس کا ایمان مضبوط ہے
)
Muslim:
The Book of Zakat
(Chapter: Giving to those whose hearts have been inclined (towards Islam) and urging those whose faith is strong to show patience)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1061.
عمرو بن یحییٰ بن عمارہ نے عباد بن تمیم سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی جب رسول اللہ ﷺ نے حنین فتح کیا، غنائم تقسیم کیے تو جن کی تألیف قلب مقصود تھی ان کو (بہت زیادہ) عطا فرمایا۔ آپ ﷺ تک یہ بات پہنچی کہ انصار بھی اتنا لینا چاہتے ہیں جتنا دوسرے لوگوں کو ملا ہے تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور ان کو خطاب فرمایا۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، پھر فرمایا: ’’ا ے گروہ انصار! کیا میں نے تم کو گمراہ نہیں پایا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے تمھیں ہدایت نصیب فرمائی! اور تمھیں محتاج وضرورت مند نہ پایا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سےتمھیں غنی کردیا! کیا تمھیں منتشر نہ پایا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے تمھیں متحد کردیا!‘‘ ان سب نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ اس سے بھی بڑھ کر احسان فرمانے والے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم مجھے جواب نہیں دو گے؟‘‘ انھوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ بہت زیادہ احسان کرنے والے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم بھی ،اگرچاہو تو کہہ سکتے ہو ایسا تھا ایسا تھا اور معاملہ ایسے ہوا، ایسےہوا‘‘ آپ ﷺ نے بہت سی باتیں گنوائیں، (آپ ﷺ ہمارے پاس اس حالت میں آئے کہ آپ کو جھٹلایا گیا تھا، ہم نے آپ ﷺ کی تصدیق کی، آپ ﷺ کو اکیلاچھوڑ دیا گیا تھا ہم نے آپ ﷺ کی مدد کی، آپ ﷺ کو نکال دیا گیا تھا، ہم نے آپ ﷺ کو ٹھکانہ مہیا کیا، آپ ﷺ پر ذمہ داریوں کا بوجھ تھا، ہم نے آپ ﷺ کے ساتھ مواسات کی) عمرو (بن یحییٰ) کا خیال ہے وہ انھیں یاد نہیں رکھ سکے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم اس پر راضی نہیں ہوتے کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے کر جائیں اور تم رسول اللہ ﷺ کو ا پنے ساتھ لے کر گھروں کو جاؤ؟ انصار قریب تر ہیں اور لوگ ان کے بُعد ہیں (شعار وہ کپڑے جو سب سے پہلے جسم پر پہنے جاتے ہیں، دثار وہ کپڑے جو بعد میں اوڑھے جاتے ہیں) اور اگر ہجرت (کا فرق) نہ ہوتا تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ ایک وادی اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی اور ان کی گھاٹی میں چلوں گا، بلاشبہ تم میرے بعد (خود پر دوسروں کو) ترجیح ملتی پاؤ گے تو صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھے حوض پر آ ملو۔‘‘
"زکاۃ"زكا.يزكو.زكاةسے ہے۔اس کا لغوی معنی اگنا اور بڑھنا ہے۔بڑھوتری تبھی ممکن ہے جب اگنے والی چیز آفات و امراض سے پاک ہو، زكا کا ایک معنی اچھا یا پاک ہونا بھی ہے۔عرب کہتے ہیں۔زكت الارض اس کا معنی ہے۔طابتیعنی زمین اچھی صاف ستھری ہوگئی۔تزکیہ اسی سے ہے۔نفوس کا تزکیہ یہ ہے کہ ان کو آفات،بہت سے امراض اور آلائشوں سے پاک کیا جائے۔انسان کو اللہ تعالیٰ فطرت سلیمہ عطا کرکے دنیا میں بھیجتا ہے۔ماں باپ اور دوسرے قریبی لوگ اس کی فطرت کو آلودہ کردیتے ہیں۔سب سے زیادہ آلودگی یہ ہوتی ہے کہ انسان وجود عطاکرنے والے اور پالنے والے اللہ کی محبت کے بجائے مادی اشیاء کی محبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔یہ مرض باقی دنیا کے تمام امراض کا سبب بنتا ہے۔اسی سے حرص وہوس،لالچ،خودغرضی،ظلم ،سرکشی،طغیان،غرض سب بیماریاں پیدا ہوتی اور بڑھتی ہیں۔انبیائے کرام خصوصاً محمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد نفوس انسانی کا تزکیہ کرنا،یعنی انھیں ان تمام مہلک بیماریوں سے نجات دلاناہے،اللہ کا ارشاد ہے"هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ"وہ جس نے امیوں(ان پڑھوں) میں انھی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے،یقیناً وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔"(الجمعۃ۔2:62)ویسے تو تمام ارکان اسلام تزکیہ نفوس کا زریعہ ہیں،ان میں سے زکاۃ بطور خاص اس مقصد کے لئے مقرر کی گئی ہے۔قرآن مجید میں صدقات اور اللہ کی راہ میں مال دینے کو تزکیے کا زریعہ بتایا گیا ہے۔رسول اللہﷺسے کہا گیا: خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ"ان کے مالوں میں سے صدقہ(زکاۃ) لیں،اس کے زریعے سے انھیں پاک کریں،انھیں صاف ستھرا کریں اور ان کو دعا دیں۔"(التوبہ۔9:103)اپنا تزکیہ اللہ کی راہ میں مال دے کر کیا جاسکتا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہےالَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ "جو اپنا مال دیتا ہے پاک ہونے کے لئے۔"(اللیل۔18:92)امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیںنفس المتصدق تزكو وماله يزكو(اي)يطهر ويزيد في المعني"صدقہ دینے والا خود بھی پاک ہوتا ہے اور اس کا مال بھی پاک ہوتا ہے۔۔۔"(مجموع فتاویٰ لابن تیمیہؒ8/25)
اس کے مقاصد میں سے ایک مواسات بھی ہے۔بنیادی اصول یہ ہے۔(توخذ من اغنيائهم وترد الي فقرائهم)"ان کے مال داروں سے لیا جائے اور ان کے فقیروں پر لوٹایا جائے۔"اس لحاظ سے زکاۃ کی صحیح ادائیگی امت کی اجتماعیت اور یکجہتی کی ضامن ہے۔اسلام نے زکاۃ بنیادی طور پر انھی اموال میں مقرر کی ہے۔جن میں بڑھوتری(نمو) ہوتی ہے،یعنی مویشی،کھیتی باڑی ،مال تجارت اورنقدی جن میں باقی تمام اموال کی قدر محفوظ رکھی جاسکتی ہے۔
یہ بھی اسلام کی رحمت کا مظہر ہے۔کہ زکاۃ کا ایک نصاب مقرر کیا گیا ہے۔مقصود یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے بعد کچھ زائد ہو۔ان سے زکاۃ وصول کی جائے،جن کے پاس بنیادی ضرورتوں کے لئے بھی مال نہ ہو یا کم ہو ان کو چھوٹ دی جائے بلکہ ان کی مدد کی جائے۔جدید معاشیات نے ٹیکس کے حوالے سے بنیادی چھوٹ کا تصور نصاب زکاۃ ہی سے لیاہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بہت آسان اور جامع لفظوں میں بہت خوبصورتی کے ساتھ اس نصاب کو یوں بیان فرمایا:()"پا نچ وسق سے کم میں صدقہ نہیں اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں صدقہ ہے۔اور نہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں صدقہ ہے۔"اور آپ ﷺنے اپنی پانچوں انگلیوں سے اشارہ کیا۔
یہی کتاب الزکاۃ میں امام مسلم ؒ کی لائی ہوئی پہلی حدیث ہے۔
وسق ماپنے کا پیمانہ ہے۔غلہ،خشک کھجوریں،کشمش وغیرہ کا لین دین وسق سے ماپ کرہوتا تھا۔پانی اور دوسری مائع اشیاء کو بھی اسی پیمانے سے ماپا جاتا تھا۔ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔اس بارے میں اگرچہ ابن ماجہ،ابو داود،اور نسائی میں مرفوع حدیثیں بھی موجود ہیں لیکن وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔(التلخیص الجیر لابن حجر 169/2،رقم:841۔842)
اس حوالے سے اعتماد اس بات پر ہے کہ اس مقدار پر اجماع ہے۔(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہؒ447/5) صاع کی مقدار پر البتہ اہل کوفہ اور اہل حجاز یا یوں کہہ لیجئے تمام ائمہ(مالک،شافعی،احمدؒ) کے درمیان اختلاف ہے۔حجاز میں زرعی اجناس کے لین دین کا نمایاں مرکز مدینہ تھا۔ان کا صاع ہی حجازی صاع کہلاتا تھا۔کوفہ میں حجاج بن یوسف نے جوصاع متعارف کروایا تھا وہ حجازی صاع سے نسبتاًبڑاتھا،اسے صاع عراقی یا صاع حجاجی کہا جاتا تھا۔
اہل کوفہ ایک صاع کووزن میں 8 رطل کے برابر قرار دیتے ہیں جبکہ اہل حجاز 5.3 رطل کے برابر۔
امام ابو یوسف اورکئی دوسرے اہل کوفہ نے حج کے موقع پر زیارت مدینہ کے دوران میں جب پتہ لگانا چاہا کہ رسول اللہ ﷺ کاصاع کتنا تھا تو کثیر تعداد میں مہاجرین اور انصار کے بیٹوں نے اپنے اپنے گھروں سے اپنے خاندانی صاع،جوصحابہؓ استعمال کرتے رہے تھے ،لا کردکھائے،امام ابو یوسف ؒ نے کہا:میں نے ان کی مقدار جانچی تو وہ سب آپس میں مساوی اور 5.3 رطل کے برابر تھے۔(فرايت امرا قويا فقد تركت قول ابي حنيفة في الصاع واخذت بقول اهل المدينة)"میں نے بہت پختہ بات دیکھی تو میں نے صاع کے بارے میں ابو حنیفہ کا قول چھوڑ دیا اور اہل مدینہ کاقول لے لیا۔"(سنن الکبریٰ للبیہقی:171:4 وسنن الدارقطنی:150:2 حدیث 2105 ط:دارالکتب العلمیۃ۔۔۔امام شوکانیؒ اس کی سند کو جید قرار دیتے ہیں)
جدید محققین نے آج کل کے حساب سے صاع کا وزن معلوم کیا تو وہ ان کے خیال کے مطابق2176۔گرام بنتاہے۔(فقہ الزکاۃ للدکتور یوسف القرضاوی372/1)
گندم کے پانچ وسق 653 کلوگرام بنتے ہیں۔(فقہ الزکاۃ للدکتور یوسف القرضاوی:373/1)
ایک اوقیہ میں چالیس درہم ہوتے ہیں،ایک درہم کاوزن جدید تحقیق کے مطابق 2.975 گرام بنتاہے،اس طرح ایک اوقیہ کا وزن ایک سو انیس گرام اور پانچ اوقیہ چاندی کاوزن پانچ سو پچانوے گرام بنتا ہے۔اس کے تولے بنائے جائیں تو تقریباً اکاون تولے بنتے ہیں۔سابقہ اندازہ ساڑھے باون تولے چاندی کا تھا جو اس مقدار کے قریب ہی تھا۔
سونے کے نصاب زکاۃ کا تذکرہ صحیحین کی احادیث میں نہیں۔امام ابو داودؒ نے حضرت علیؓ کے حوالے سے حدیث بیان کی ہے،اس کے الفاظ ہیں:()"تم پر کوئی چیز(بطور زکاۃ ادا کرنا)فرض نہیں،یعنی سونے میں جب تک تمھارے پاس(کم از کم) بیس دینار نہ ہوں۔جب تمھارے پاس بیس دینار ہوں اور ان پر سال گزرجائے توان میں آدھا دینار(زکاۃ) ہے،جو اس سے زیادہ ہوگا وہی اس حساب کے مطابق(محسوب) ہوگا۔"(سنن ابی داود،الزکاۃ باب فی الذکاۃ السائمۃ حدیث 1573۔قاضی عیاض ؒ کہتے ہیں:سونے کے نصاب پر اجماع ہے۔
سونے کے دینار میں چوبیس قراط ہوتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کے دور میں رومی اور ایرانی دینار استعمال ہوتے تھے۔عبدالملک بن مروان نے زکاۃ کے نصاب کو پیش نظر رکھتے ہوئے،اہل علم کے اتفاق سےجو دینار ڈھالے اور جن کے مطابق صدیوں تک دینار ڈھالے جاتے رہے وہ دینار مل بھی چکے ہیں۔ان دیناروں کے وزن کے مطابق سونے کی زکاۃ کا نصاب85گرام بنتا ہے۔یہ برصغیر پاک وہند میں سونے کے نصاب کا جو حساب لگایا گیاتھا وہ ساڑھے سات تولے تھا،اس کے ستاسی گرام بنتے ہیں،یعنی محض دو گرام زیادہ۔اب تقریباً پورے عالم اسلام کا 85 گرام پر اتفاق ہے۔
نقدی:رسول اللہ ﷺکے عہد مبارک میں سونے چاندی یا ان کے ڈھلے ہوئے سکے بطور نقدی استعمال ہوتے تھے۔علمائے امت کا اجماع ہے کہ کرنسی کو انھی پر قیاس کیاجائے گا۔مغربی استعمار کے غلبے کے بعد دنیا میں کاغذ کی کرنسی رائج ہوئی۔ہر ملک ایسی کرنسی سونے یا چاندی کی بنیاد پر جاری کرتاتھا۔(خزانے میں کرنسی کے مساوی یا ایک خاص تناسب سے سونا یا چاندی کا موجود ہوناضروری تھا)کچھ عرصے بعد یہ بنیاد بھی ختم ہوگئی،اب کرنسی کی بنیاد نہ سونے پر ہے نہ چاندی پر۔اب لوگوں کے پاس موجودہ کرنسی پر زکاۃ کانصاب کیاہوگا؟بعض لوگ کہتے ہیں اسے چاندی کے نصاب پر قیاس کیا جائے۔بعض سونے کے نصاب پر قیاس کرنے کے قائل ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاندی اورسونے دونوں کا نصاب قیمت یا مالیت کے اعتبار سے مساوی تھا لیکن بعد میں چاندی اپنی قیمت برقرار نہ رکھ سکی،باقی اشیاء جن پر زکاۃ فرض ہے۔مثلاً بھیڑ ،بکریاں،یا اونٹ وغیرہ ان کی مالیت کے ساتھ چاندی کے نصاب کی مالیت کوئی مطابقت نہیں رکھتی،ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت میں پانچ چھ سے زیادہ بکریاں نہیں خریدی جاسکتیں۔دوسری طرف سونے کی قیمت بھی غیر متناسب طریقے پر زیادہ ہورہی ہے۔اب کرنسی کی زکاۃ کامسئلہ انتہائی سنجیدہ غور وفکر کا متقاضی ہے۔
امام قرطبیؒ نے ابو عبید قاسم بن سلامؒ کے حوالے سے لکھا ہے۔کے اسلام کے ابتدائی دور میں ایرانی اور رومی د ونوں قسموں کے درہم متد اول تھے۔ایک دوسرے کا آدھا تھا۔ایک کا وزن آٹھ دانق تھا اور دوسر ے کا چاردانق،لوگ دونوں کو مساوی طور پر ملا کر یعنی آدھے بڑے اورآدھے چھوٹے دراہم سے اپنے معاملات طے کیا کرتے تھے۔اسلام آیا تو لوگوں نے زکاۃ کی ادائیگی کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا۔وہ سو ایرانی اور سو رومی درہموں کو ملا کر ان سے زکاۃ کے نصاب کا تعین کرتے۔دونوں کو مساوی تعداد میں ملانے سے پانچ اوقیہ چاندی کا نصاب پورا ہوجاتا،اسی طرح زکاۃ ادا کی جاتی۔عبدالملک نے جب اپنے درہم ڈھلوانے کا ارادہ کیا تو تمام اہل علم کو جمع کیا۔انھوں نے درہم کا وزن،دونوں درہموں کی اوسط،یعنی 4+8 دانق کا نصف6 دانق مقرر کیا۔اس طرح سے دو سو درہموں میں پانچ اوقیہ چاندی پوری ہوجاتی تھی۔
اگر سونے کی قیمتیں اسی طرح غیر متناسب انداز میں بڑھتی رہیں تو ایسا کیا جاسکتاہے کہ کرنسی کے لئے چاندی کے نصاب کی مالیت کا نصف سونے کی نصاب کی مالیت کا نصف ملا کر مقدار نصاب متعین کرلیا جائے۔اس کے لئے پورے عالم اسلام کے حوالے سے اہل علم کا اجماع حاصل کرنا ناگزیر ہوگا۔فی الحال یہی مناسب ہے کہ جب تک سونے کے نصاب اور چاندی کو چھوڑ کرباقی اشیاء کے نصاب کی قیمتیں قریب قریب رہتی ہیں سونے کے نصاب کو کرنسی کے نصاب کی بنیاد بنایا جائے۔
کتاب الذکاۃ میں امام مسلم ؒ نے جس ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،۔اس کے بارے میں امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:امام مسلمؒ نےامام مالک ؒ کی موطا کی طرح اپنی صحیح میں صحت کے اعلیٰ ترین معیار پر احادیث ترتیب دی ہیں۔انھوں نے پہلے چاندی کا نصاب ذکر کیا ہے۔پھر اونٹوں کا ،پر اجناس خوردنی اور خشک پھلوں کا،پھر مویشی اور دیگر اشیاء کا، پھر یہ کہ ایک سال گزرنا ضروری ہے۔اس غرض سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمر ؓ ،اور ابن عمر ؓ ،کے حوالے سے روایتیں بیان کیں،اس میں اگرچہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباسؓ اختلاف کرتے ہیں،لیکن دو خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے جو کیا ہے وہ اس لئے راحج ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهدين من بعدي"تم میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔"(شرح مشکل الآثار 3/223 حدیث 1186،نیز دیکھئے،سنن ابن ماجہ حدیث 42،43،وسنن ابی داود حدیث ،4607۔4608) اور یہ بھی فرمایا:((فان يطيعواابابكر وعمر يرشدوا))"اگر وہ ابو بکر اور عمر رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اطاعت کریں تو راہنمائی پائیں گے"(صیح مسلم حدیث 681) اس کے بعد امام مسلمؒ نے سونے کی زکاۃ کا ذکر کیا ہے۔کیونکہ اسکی دلیل کی قوت نسبتاً کم ہے۔پھر ان چیزوں کاذکر کیاگیاہے جن میں زکاۃ فرض کی گئی ہے۔اس حوالے سے قرآن کی آیات اور احادیث بیان کی ہیں۔ان میں بہترین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت اور زکاۃ کےی بارے میں آپ کا مکتوب ہے۔ان کے بعد وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سے روایت لائے ہیں۔(مجموع فتاویٰ لابن تیمیہؒ25:9)
عمرو بن یحییٰ بن عمارہ نے عباد بن تمیم سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی جب رسول اللہ ﷺ نے حنین فتح کیا، غنائم تقسیم کیے تو جن کی تألیف قلب مقصود تھی ان کو (بہت زیادہ) عطا فرمایا۔ آپ ﷺ تک یہ بات پہنچی کہ انصار بھی اتنا لینا چاہتے ہیں جتنا دوسرے لوگوں کو ملا ہے تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور ان کو خطاب فرمایا۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، پھر فرمایا: ’’ا ے گروہ انصار! کیا میں نے تم کو گمراہ نہیں پایا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے تمھیں ہدایت نصیب فرمائی! اور تمھیں محتاج وضرورت مند نہ پایا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سےتمھیں غنی کردیا! کیا تمھیں منتشر نہ پایا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے تمھیں متحد کردیا!‘‘ ان سب نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ اس سے بھی بڑھ کر احسان فرمانے والے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم مجھے جواب نہیں دو گے؟‘‘ انھوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ بہت زیادہ احسان کرنے والے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم بھی ،اگرچاہو تو کہہ سکتے ہو ایسا تھا ایسا تھا اور معاملہ ایسے ہوا، ایسےہوا‘‘ آپ ﷺ نے بہت سی باتیں گنوائیں، (آپ ﷺ ہمارے پاس اس حالت میں آئے کہ آپ کو جھٹلایا گیا تھا، ہم نے آپ ﷺ کی تصدیق کی، آپ ﷺ کو اکیلاچھوڑ دیا گیا تھا ہم نے آپ ﷺ کی مدد کی، آپ ﷺ کو نکال دیا گیا تھا، ہم نے آپ ﷺ کو ٹھکانہ مہیا کیا، آپ ﷺ پر ذمہ داریوں کا بوجھ تھا، ہم نے آپ ﷺ کے ساتھ مواسات کی) عمرو (بن یحییٰ) کا خیال ہے وہ انھیں یاد نہیں رکھ سکے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم اس پر راضی نہیں ہوتے کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے کر جائیں اور تم رسول اللہ ﷺ کو ا پنے ساتھ لے کر گھروں کو جاؤ؟ انصار قریب تر ہیں اور لوگ ان کے بُعد ہیں (شعار وہ کپڑے جو سب سے پہلے جسم پر پہنے جاتے ہیں، دثار وہ کپڑے جو بعد میں اوڑھے جاتے ہیں) اور اگر ہجرت (کا فرق) نہ ہوتا تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ ایک وادی اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی اور ان کی گھاٹی میں چلوں گا، بلاشبہ تم میرے بعد (خود پر دوسروں کو) ترجیح ملتی پاؤ گے تو صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھے حوض پر آ ملو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین فتح کر کے غنیمتیں تقسیم کیں تو جن کی تالیف قلب مقصود تھی ان کو خوب عطا فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی کہ انصار بھی دوسرے لوگوں کی طرح حصہ لینا چاہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر انہیں خطاب فرمایا۔ اللہ تعالی نہ حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا: ’’ا ے انصار! کیا میں نے تم کو گمراہ نہیں پایا تھا، اور اللہ نے میرے ذریعہ تمھیں ہدایت نصیب فرمائی!؟ اور تم محتاج وضرورت مند تھے، اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تمھیں غنی فرما دیا! کیا تم منتشر اور باہمی دشمن نہ تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تمھیں متحد اور یکجا کر دیا!‘‘ اور وہ کہہ رہے تھے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان ا سسے بھی بڑھ کر ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم مجھے جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘ انھوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم احسان کا احسان بہت زیادہ ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو ایسے تھا، ایسے تھا، ایسے ہوا، ایسےہوا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی باتیں گنوائیں، عمرو (بن یحییٰ) کا خیال ہے وہ انھیں یاد نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے کر جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ا پنے ساتھ گھروں کو لے جاؤ؟ انصار قریب تر ہیں اور لوگ ان کے بعد ہیں اور اگر ہجرت معاملہ نہ ہوتا تو میں بھی انصار کا ایک فرد شمار ہوتا اور اگر لوگ ایک وادی اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی اور ان کی گھاٹی میں چلوں گا، تم میرے بعد ترجیح کا معاملہ پاؤ گے تو صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھے حوض پر ملو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) شعار:وہ کپڑا جو جسم پر لگتا ہے یعنی اندرونی کپڑا، مقصود یہ ہے انصار میرے خصوصی اور جگری، قابل اعتماد ساتھی ہیں۔ (2) دثار:اوپر والا یعنی بیرونی کپڑا، عام لوگ دوسرے درجہ پر اور انصار کے بعد ہیں۔
فوائد ومسائل
1۔ بعض دفعہ کوئی معاملہ یا رویہ ساتھیوں کے لیے غلط فہمی کا باعث بن جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں۔ تو ایسے وقت میں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے سامنے معاملے کی اصل حقیقت کھول کر بیان کی جائے تاکہ ان کی غلط فہمی دور کی جائے اور جذبات ٹھنڈے پڑ جائیں۔ اگر معاملہ پرفوری طور پر قابو نہ پایا جائے اور ساتھیوں کو مطمئن کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو معاملہ آہستہ آہستہ سنگین ہو جاتا ہے۔ بدظنیاں بڑھتی رہتی ہیں اور کسی دن جذبات کا لاوا پھٹ جاتا ہے اور نئے نئے مسائل جنم لیتے ہیں جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے عام طور پر اصحاب اقتدار اپنے ساتھیوں کو اعتماد میں نہیں لیتے اور آہستہ آہستہ دلوں میں کدورت اور بغض پیدا ہوتا رہتا ہے جو کسی بھی ضرورت کے وقت خرابی کا باعث بن جاتا ہے۔ نیز اولین حیثیت دین وایمان اور عقیدہ کو حاصل ہے
کیونکہ وہ اعتماد کی بنیاد ہے۔اگراعتماد برقرار ہوتو ساتھیوں کوراضی اور مطمئن کرنا آسان ہے اوربد اعتمادی کی فضاء میں راضی کرنا آسان نہیں ہے۔جبکہ آج کل اول و آخر حیثیت مالی مفادات کوحاصل ہے جن کو مالی مفادات نہیں ملتے وہ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔اور مالی مفادات کی خاطر دشمن کو بھی دوست بنا لیتے ہیں۔اس لیے تمام معاملات دگرگوں ہوگئے ہیں اور اتحاد ویگانت کا فقدان ہے۔2۔آپ نے واقعہ حنین میں جس ترجیح اور برتری سے انصار کو آگاہ فرمایا تھا وہ شیخین(ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے ادوار کے بعد ظاہر ہوگیا۔حکومتی اور انتظامی ادوار میں انہیں نظر انداز کردیاگیا جس کے بُرے اثرات بھی نکلے۔3۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انصار تم کہہ سکتے ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے آپ کی تکذیب کی اور ہم نے آپ کی تصدیق کی،انہوں نے آپ کو بے یارومددگار چھوڑدیا،ہم نے آپ کی نصرت وحمایت کی،انہوں نے آپ کو نکال دیا اور ہم نے آپ کو جگہ دی ،ضرورت کے وقت ہم نے آپ کی ہمدردی اورغمگساری کی،لیکن انہوں نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان ہے۔بہرحال آپ نے ہر اعتبار سے انصار کی دل جوئی فرمائی اور ان کو اپنے قریبی اور خصوصی ساتھی ہونے کا احساس دلوایا اور بتایا میرا مرنا،جینا تمہارے ہی ساتھ ہے ۔میرے دل میں تمہاری محبت احترام میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی اور دوسرے مجھے تم سے قریب اور عزیز نہیں ہوگئے ہیں۔میں نےمحض ان کی تالیف قلبی کے لیے ان کو مال دیا ہے اور تمہیں تالیف قلبی کی ضرورت نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin Zaid (RA) reported that when the Messenger of Allah (ﷺ) conquered Hunain he distributed the booty, and he bestowed upon those whose hearts it was intended to win. It was conveyed to him (the Holy Prophet) that the Ansar cherished a desire that they should be given (that very portion) which the people (of Quraish) had got. Upon this the Messenger of Allah (ﷺ) stood up and, after having praised Allah and lauded Him, addressed them thus: O people of Ansar, did I not find you erring and Allah guided you aright through me, and (in the state of) being destitute and Allah made you free from want through me, and in a state of disunity and Allah united you through me, and they (the Ansar) said: Allah and His Messenger are most benevolent. He (again) said: Why do you not answer me? They said: Allah and His Messenger are the most benevolent. He said, If you wish you should say so and so, and the event (should take) such and such course (and in this connection he made a mention) of so many things. 'Amr is under the impression that he has not been able to remember them. He (the Holy Prophet) further said: Don't you feel happy (over this state of affairs) that the people should go away with goats and camels, and you go to your places along with the Messenger of Allah? (ﷺ) The Ansar are inner garments (more close to me) and (other) people are outer garments. Had there not been migration, I would have been a man from among the Ansar. If the people were to tread a valley or a narrow path, I would tread the valley (chosen) by the Ansar or narrow path (trodden) by them. And you would soon find after me preferences (over you in getting material benefits). So you should show patience till you meet me at the Haud (Kauthar).