باب: (روزوں میں )وصال (ایک روزے کو افطار کیے بغیر دوسرے سے ملانے)کی ممانعت
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The prohibition of Al-Wisal)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1105.
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ نے صحابہ پر رحمت وشفقت کرتے ہوئے ان کو وصال سے منع کیا تو انھوں نے کہا: آپﷺ بھی تو وصال کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ بلاشبہ میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ نے صحابہ پر رحمت وشفقت کرتے ہوئے ان کو وصال سے منع کیا تو انھوں نے کہا: آپﷺ بھی تو وصال کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ بلاشبہ میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لوگوں پر رحمت و شفقت کی خاطر انہیں وصال سے روکا تو انھوں نے کہا، آپﷺ بھی تو وصال کرتے ہیں! آپﷺ نے فرمایا: ’’میں تمھاری ہیئت و کیفیت میں نہیں ہوں کیونکہ مجھے تو میرا رب کھلاتا پلاتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
1۔ آپﷺ چونکہ امت کے لیے اسوہ حسنہ ہیں اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مشقت و کلفت برداشت کر کے بھی آپﷺ کا رویہ اور طرز عمل جہاں تک ممکن ہوتا تھا اختیار کرنے کی کوشش فرماتے۔ اسی کے مطابق آپﷺ کے وصال کرنے کو معلوم کر کے وصال کرنے لگے لیکن چونکہ وصال میں بغیر افطار اور سحری کے مسلسل روزے رکھے جاتے ہیں دنوں کی طرح راتیں بھی بلا کھائے پئے گزرتی ہیں اس لیے ایسے روزے تکلیف اور مشقت کا باعث ہونے کی بنا پر ضعف اور کمزوری بھی پیدا کرتے ہیں اس لیے یہ خطرہ ہی نہیں عام لوگوں کے اعتبار سے واقعہ ہے کہ انسان اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ دوسرے فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کرنا مشکل ہو جاتا ہے اس لیے آپﷺ نے امت کو اس طرح روزے رکھنے سے منع فرما دیا اور آپﷺ کا معاملہ اس کے برعکس ہے جیسا کہ آگے وضاحت آ رہی ہے۔ 2۔ (أيُّكُمْ مِثْلِي) تم میں سے کون میری مثل ہے: بعض حضرات نے اس حدیث سے کشید کیا ہے کہ کسی وجودی معنی میں کائنات کا کوئی شخص آپﷺ کی مثل نہیں ہےاس لیے: (إِنَّمَآ أَنَاْ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ) جو وجودی معنی ہے کہ میں بھی تمھاری طرح انسان ہوں کا معنی کیا ہے کہ میں بھی تمھاری طرح معبود نہیں ہوں حالانکہ اس حدیث کا معنی بالکل واضح ہے کہ: (إنَّكم لستُمْ في ذلك مثلي) کہ تم اس وصال کے معاملہ میں میری مثل نہیں۔کیونکہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے اور تمھارے ساتھ اس کا یہ معاملہ نہیں ہے وگرنہ آپﷺ بھی عام انسانوں کی طرح کھاتے پیتے تھے۔ سوتے جاگتے تھے۔ بیوی بچوں والے تھے۔ بول کا شکار ہو جاتے تھے پھر اس سے امتناع نظیر کا مسئلہ نکالا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے آپﷺ کی نظیر پیدا کرنا محال بالذات ہے حالانکہ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ جیسے اشخاص پیدا کر سکتا ہے ان کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کی وسعت و کمال کو ثابت کرنا ہے کہ آپﷺ جیسا صاحب کمال و جمال پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ اگر وہ پیدا کر سکتا ہے تو وہ اس کو آپﷺ کی طرح خاتم الانبیاء بھی بناتا تو اس طرح خاتم الانبیاء ایک ہوتا، دوسرا خاتم الانبیاء نہ ہوتا، لہٰذا دونوں کا برابر ہونا ممتنع اور محال بالذات ہے لہٰذا آپﷺ کی نظیر ممتنع بالذات ہے آپﷺ جیسا پیدا کرنے کا لازمی نتیجہ خاتم الانبیاء بنانا نہیں ہے مقصد صرف انسانی کمالات و خوبیاں پیدا کرنا ہے وگرنہ تو کوئی ایک انسان دوسرے کی نظیر و مثیل نہیں بن سکتا ہر ایک میں کوئی نہ کوئی وجہ امتیاز موجود ہے تو پھر آپﷺ کی نظیر کے امتناع کی بحث کی کیا ضرورت رہی۔ 3۔ (إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُني رَبِّي ويَسْقِيني) میں رات اس طرح گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا ہے: (إنّي أَظَلّ- عِنْدَ رَبّي يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِي) میرا دن اس طرح گزرتا ہے کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے اب پہلے فرمان کی روسے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے اگر آپﷺ کھاتے پیتے تھے تو پھر آپﷺ کا وصال کیسا ہوا، دوسرے فرمان پر یہ اشکال ہے کہ دن کو تو کھانا پینا جائز نہیں ہے نیز دن کو کھانے پینے والا تو روزہ دار ہی نہیں ہو سکتا۔ تو آپﷺ روزے دار اور وصال کرنے والے کیسے بن گئے اس کا جواب دو طرح دیا جا سکتا ہے۔ آپﷺ کا کھانا پینا وصال یا روزے کے منافی تب ہوتا اگر آپﷺ کا طعام معتاد یعنی دنیوی ہوتا آپﷺ معتاد طریقہ کے مطابق ظاہری طور پر منہ سے کھاتے یا خود کھاتے نہ یہ کھانا معتاد تھا اور نہ طریق اکل معتاد تھا اور نہ آپﷺ نے خود کھایا۔ (ب) جمہور کے نزدیک کھانا پینا مجازی معنی میں ہے کہ کھائے پیے بغیر بھوک و پپاس کے باوجود آپﷺ کے قلب و جگر اور روح کو وہ طاقت اور توانائی میسر رہتی تھی جس سے آپﷺ کی قوت کار اور صحت متاثر نہیں ہوتی تھی یا بقول بعض صوم وصال کی صورت میں آپﷺ کو کھائے پیے بغیر سیری اور سیرابی حاصل ہو جاتی تھی اور آپﷺ کی بھوک پیاس مٹ جاتی تھی اس طرح جمہورکے نزدیک قوت و توانی بھوک پیاس کی موجودگی میں حاصل ہوتی تھی اور دوسرے قول کے مطابق قوت و توانائی بھوک و پیاس ختم کر کے سیری سیرابی سے حاصل ہوتی تھی لیکن یہ وصال کے ساتھ خاص ہے۔ عام حالات میں آپﷺ کو بھوک و پیاس محسوس ہوتی تھی اور آپﷺ پیٹ پر بھوک کی بنا پر پتھر بھی باندھتے تھے۔ اور بقول امام نووی رحمۃ اللہ علیہ یہ غیر مادی اور روحانی غذا تھی کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی طرف دھیان و توجہ کی بنا پر کھانے پینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ گویا روزے کی حالت میں آپﷺ پر اس قدر انواروتجلیات الٰہیہ کا فیضان ہوتا جس سے لذت مناجات اور آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل ہوتی جوغذائے قلبی بنتی جس کی بنا پر مادی غذا کی ضرورت نہ رہتی ایک شاعرکہتا ہے۔ لها أحاديث من ذكــــراك تشغلها عن الشــراب وتلهيها عن الزاد ’’اسے تیرے ذکر و یاد کی باتیں مشروب اور زاد سے مشغول اور غافل کر دیتی ہیں۔‘‘ دوسرا کہتا ہے۔ ’’وذكرك للمشتاق خير شراب وكل شراب دونه سراب‘‘ ’’اس کے لیے تیری یاد ہی بہترین مشروب ہے جس کے مقابلہ ہر قسم کا مشروب محض سراب اور بے حقیقت ہے۔‘‘ 4۔ ممانعت وصال کی روایات کا اصل مقصد اور منشاء یہ ہے کہ بندے مشقت اور تکلیف میں مبتلا نہ ہوں اس لیے آپﷺ نے سحر تک وصال کی اجازت دی اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو دو دن وصال بھی کرایا دو ٹوک انداز میں منع نہیں فرمایا بلکہ اپنے وصال کی علت وسبب کا اظہار فرمایا: اس لیے اگر کوئی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا باہمت اور حوصلہ مند انسان انفرادی اور شخصی طور پر ایسا موجود ہو جو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ وصال بھی کر سکتا ہو تو وہ اپنا شوق پورا کر کے دیکھ لے۔ اس لیے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ، بعض شوافع اور موالک اور احناف کے نزدیک وصال حرام نہیں ہے مکروہ تنزیہی ہے اگرچہ اکثر آئمہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ،امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، کے نزدیک حرام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha (Allah be pleased with her) said: The Apostle of Allah (ﷺ) forbade them (his Companions) to observe Saum Wisal out of mercy for them. They said: You (Holy Prophet) yourself observe it. Upon this he said: I am not like you. My Lord feeds me and provides me drink.