باب: اس آدمی کے لیے روزے کے دوران میں بیوی کا بو سہ لینا حرام نہیں جس کی شہوت کو تحریک نہ ملتی ہو
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Clarifying that Kissing when fasting is not unlawful for the one whose desire is not provoked by that)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1108.
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: کیا روزہ دار (بیوی کو) چوم سکتا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ان (ام سلمہ) سے پوچھ لو‘‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ ﷺ ایسا کر لیا کرتے ہیں۔ اس پر انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ کے تواللہ تعالی نے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اسے جواب دیا: ’’دیکھو، اللہ کی قسم! میں تم میں سب سے زیادہ بڑھ کر اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والا اور تم سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا ہوں۔‘‘
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: کیا روزہ دار (بیوی کو) چوم سکتا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ان (ام سلمہ) سے پوچھ لو‘‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ ﷺ ایسا کر لیا کرتے ہیں۔ اس پر انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ کے تواللہ تعالی نے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اسے جواب دیا: ’’دیکھو، اللہ کی قسم! میں تم میں سب سے زیادہ بڑھ کر اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والا اور تم سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا روزے دار بوسہ لے سکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دیا: ’’اس (اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے پوچھ لے‘‘ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے ہیں، انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ آپ کے تو اگلے پچھلے ذنب معاف کر چکا ہے (اس لیے آپ کے لیے جائز ہو سکتا ہے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ’’ہاں اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ اس کی حدود کی پابندی کرنے والا اور تم سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ بوس و کنار کر لیتے ہیں تو آپ کے لیے یہ ممکن ہے کیونکہ آپ کے تو اللہ تعالیٰ نے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں۔ اس میں لفظ ذنب قابل غور ہے۔ کیونکہ اس کا اطلاق کسی کی شان سے فروتر یا خلاف اولیٰ کام سے لے کر بڑے سے بڑے جرم و گناہ پر ہو جاتا ہے اس لیے آئمہ تفسیر و حدیث نے اس کے مختلف معانی بیان کیے ہیں۔ بقول علامہ آلوسی یہاں گناہ کا معنی نہیں ہے بلکہ ذنب ان کاموں کو کہا گیا ہے جن کو آپﷺ اپنی شان سے فروتر خیال کرتے تھے اور علامہ ابو مسعود کے نزدیک بعض اوقات آپﷺ تبلیغ اور تشریع کے پیش نظر افضل اور اولیٰ کام ترک کر دیتے تاکہ مسلمان کو پتہ چل سکے ان کاموں کا ترک کرنا بھی جائز ہے یا بعض دفعہ آپﷺ نے کسی سے روکا اور پھر اس کو کر بھی لیا تاکہ پتہ چل سکے یہ کام مکروہ تنزیہی ہے حرام نہیں۔ آپﷺ نے اس کو بھی ذنب خیال کر لیا اور بقول علامہ عینی اس کا تعلق (حسناتُ الأبرار سيئاتُ المقربين) سے ہے اور بقول علامہ عزالدین تمام انبیاء علیہ السلام (مغفورلهم) ہیں لیکن ان کی مغفرت کا دنیا میں آپ کی طرح اعلان نہیں ہوا اسی وجہ سے میدان حشر میں اولوالعزم رسول بھی شفاعت کبری سے نفسی نفسی کہہ کر گریز کریں گے اور آپ بغیر کسی فکرو و تشویش اور جھجک کے اطمینان اور شرح صدر سے شفاعت فرمائیں گے اور بقول تاج الدین سبکی یہ آپ کی عزت افزائی کے لیے فرمایا گیا ہے اور قاضی سلیمان منصور پوری نےرحمۃ للعالمین ج3 میں خصوصیت 12 کے تحت بڑی تفصیل سے یہ بیان کیا ہے کہ یہاں ذنب کا معنی الزام ہے جیسا کہ قرآن مجید میں موسیٰ علیہ السلام کا قول نقل کیا گیا ہے: (وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنبٌ فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ) ان کا میرے ذمہ الزام ہے۔ اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کریں گے لیکن اگر مختلف احادیث کا سیاق و سباق سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین یہ سمجھتے کہ آپ اگر خلاف اولیٰ یا بظاہر نامناسب کام کر لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے مثلاً بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک حدیث ہے۔ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو ایسے اعمال کا حکم دیتے جس میں زیادہ مشقت و کلفت نہ ہوتی تو وہ عرض کرتے (إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ) ہمارا معاملہ آپ جیسا نہیں ہے کیونکہ آپ کے اگلے اور پچھلے ذنب معاف ہو چکے ہیں۔ (اس لیے آپ کے لیے آسان اور کم عبادت بھی کافی ہے) تو آپﷺ کے چہرے پر ناراضی کے آثار نمایاں ہو جاتے اور فرماتے میں تم سب سے زیادہ اللہ کی حدود کی پابندی کرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کا علم رکھتا ہوں اس لیے میرا عمل سب سے بہتر اور اعلیٰ ہونا چاہیے اسی طرح عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ بالا روایت ہے کہ اگر آپ بوس و کنار کر لیں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اپ کے اگلے پچھلے گناہ (خلاف اولیٰ اور آپ کی شان سے فروتر) معاف ہو چکے ہیں اس طرح آگے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت آ رہی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں بعض دفعہ نماز کے وقت جنبی ہوتا ہوں تو کیا میں روزہ رکھ سکتا ہوں، آپﷺ نے فرمایا: میں ایسی صورت حال میں روزہ رکھ لیتا ہوں تو اس نے کہا۔ (لَسْتَ مِثْلَنَا) كیونکہ: ﴿لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ﴾ تو آپﷺ نے فرمایا: میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور سب سے زیادہ ان چیزوں کو جانتا ہوں جن سے مجھے بچنا ہے اس طرح اسی صحابی نے جنابت کی حالت کو روزہ کے مناسب نہ سمجھا لیکن حضور کے لیے اسی کو جائز خیال کیا ۔ اسی طرح ایک متفق علیہ حدیث ہے آپ بعض دفعہ اس قدر طویل قیام فرماتے کہ آپﷺ کے قدم مبارک سوج جاتے تو آپﷺ سے عرض کیا گیا آپﷺ کو اس قدر مشقت کی کیا ضرورت ہے ﴿لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ﴾ تو آپﷺ نے فرمایا: (أفَلا أكُونُ عَبْدًا شَكُورًا) کیا عزت افزائی پر اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ذنب سے مراد خلاف اولیٰ آپ کی شان سے فروتر یا خوب تر کو چھوڑ کر مباح کام کرنا ہے جو فی نفسہ گناہ نہیں ہے نہ برا کام ہے لیکن آپ کی شان اعلیٰ و افضل سے کم تر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Umar b Abu Salama reported that he asked the Messenger of Allah (ﷺ) : Should one observing fast kiss (his wife)? The Messenger of Allah (ﷺ) said to him: Ask her (Umm Salamah). She informed him that the Messenger of Allah (ﷺ) did that, where upon he said: Messenger of Allah, Allah pardoned thee all thy sins, the previous and the later ones. Upon this the Messenger of Allah (ﷺ) ) said: By Allah, I am the most God conscious among you and I fear Him most among you.