باب: عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دنوں میں روزہ رکھنے کی ممانعت
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The prohibition of fasting on the two days of 'Id)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1139.
زیاد بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہا: ایک آدمی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا،، میں نے نذر مانی ہے کہ ایک دن کا روزہ رکھوں گا، اور وہ (دن) اضحیٰ کا یا فطر کا واقع ہو رہا ہے، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ نے نذر کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ سے منع فرمایا ہے۔
تشریح:
فوائد ومسائل
جان بوجھ کر اس دن کی نذر نہیں مانی گئی تھی۔ اتفاقاً وہی دن پڑ گیا۔ نذر پوری کرنی ضروری ہے لیکن اگر وہ کسی بھی سبب سے چاہے وقت کے سبب سے گناہ بن جائے تو اس کوپورا کرنا ممنوع ہے۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
زیاد بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہا: ایک آدمی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا،، میں نے نذر مانی ہے کہ ایک دن کا روزہ رکھوں گا، اور وہ (دن) اضحیٰ کا یا فطر کا واقع ہو رہا ہے، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ نے نذر کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
جان بوجھ کر اس دن کی نذر نہیں مانی گئی تھی۔ اتفاقاً وہی دن پڑ گیا۔ نذر پوری کرنی ضروری ہے لیکن اگر وہ کسی بھی سبب سے چاہے وقت کے سبب سے گناہ بن جائے تو اس کوپورا کرنا ممنوع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زیاد ابن جبیر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور پوچھا میں نے ایک دن روزہ رکھنے کی نذر مانی اور وہ دن اضحیٰ کا دن یا فطر کا دن نکل آیا تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جواب دیا اللہ تعالیٰ نے نذر پوری کرنے کا حکم دیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
امت کے نزدیک بالاتفاق عید الفطر اور عید الاضحیٰ کا روزہ رکھنا حرام ہے لیکن اگر کسی نے ان دنوں کے روزے کی نذر مانی تو جمہور ائمہ کے نزدیک وہ نذر کالعدم ہوگی اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ نذر منعقد ہوجائے گی اور اس کی قضاء ضروری ہوگی اور اگر اسی دن روزہ رکھ لے تو ہو جائے گا یعنی اگر کسی نے نذر مانی کہ میں فلاں تاریخ کو روزہ رکھوں گا یافلاں ماہ کے پہلے ہفتہ میں سوموار کا یا جمعرات کا روزہ رکھوں گا اور وہ دن اتفاق سے عید کا دن نکلا تو جمہور کے نزدیک روزہ کی نذر کالعدم ہوگی اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قضاء لازم ہے کیونکہ نذر منعقد ہوچکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ziyad bin Jubair reported that a person came to Ibn 'Umar (RA) and said: I had taken a vow that I would fast on the day (but it accidentally) synchronises with the day of Adha or the day of Fitr. Thereupon Ibn 'Umar (RA) said: Allah, the Exalted, has commanded fulfilling of the vow, but the Messenger of Allah (ﷺ) has forbidden the observance of fast on this day.