باب: لیلۃ القدر کی فضیلت ‘اس کو تلاش کرنے کی ترغیب ‘اس کی وضاحت کہ وہ کب ہے ؟اور کن اوقات میں ڈھونڈنے سے اس کےمل جانے کی زیادہ امید ہے
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The virtue of Lailat Al-Qadr and the Exhortation to seek it; When it is and the most likely times to seek it)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1170.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہا: رسول اللہ ﷺ کے سامنے ہم نے آپﷺ میں لیلۃ القدر کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فر مایا: ’’تم میں سے کس کو یاد ہے جب چا ند طلوع ہوا اور وہ پیالے کے ایک ٹکڑے کے مانند تھا (وہی رات تھی)‘‘
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہا: رسول اللہ ﷺ کے سامنے ہم نے آپﷺ میں لیلۃ القدر کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فر مایا: ’’تم میں سے کس کو یاد ہے جب چا ند طلوع ہوا اور وہ پیالے کے ایک ٹکڑے کے مانند تھا (وہی رات تھی)‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہم نے لیلہ القدر کا باہمی تذکرہ کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’کس کو یاد ہے کہ شب قدر اس رات میں ہے جس کی صبح چاند طشت کے ایک ٹکڑے کی طرح طلوع ہو تا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
جفنة:پیالے کو کہتے ہیں اور شق نصف اور آدھے کو، مقصد یہ ہے کہ یہ رات آخری راتوں میں ہے، کیونکہ چاند کی یہ کیفیت آخری راتوں میں ہوتی ہے۔
فوائد ومسائل
1۔ لیلۃ القدر، قدر کےمختلف معانی ہیں، 1۔ تعظیم یا عظمت فرمایا: ﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ﴾ انہوں نے پوری طرح اللہ کی عظمت وبڑائی کو نہیں پہچانا، اس رات کو عظمت اور بزرگی حاصل ہے۔ کیونکہ اس میں قرآن مجید اترا، فرشتوں کا نزول ہوتا ہے خیروبرکت اور رحمت ومغفرت کا نزول ہوتا ہے اس میں کیے گئے عمل کی قدر وقیمت بڑھ جاتی ہے اور صاحب عمل کو شرف ومنزلت حاصل ہوتی ہے۔ 2۔قدر (تضیق وتنگی) فرمایا: ﴿وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ﴾ جس کا رزق تنگ کر دیا جاتا ہے، کیونکہ اس کا متعین طور پر یقینی اور قطعی علم نہیں ہے، علم کی روشنی میں نہیں ہے یا فرشتوں کی کثرت سے زمین تنگ پڑ جاتی ہے۔ قدر: تقدیر کے معنی میں ہے، تقدیر کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اپنی حکمت کے تقاضے کے تحت، مخصوص مقدار، مخصوص کیفیت وہئیت اور مخصوص مقدار ومدت کے لیے پیدا فرماتا ہے پورے سال کے احکام، قوموں کے عروج وزوال زندگی، موت، رزق، بارش کے بارے میں فیصلے اس رات طے ہوتے ہیں، فرمایا: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ) تمام حکیمانہ فیصلے اس مبارک رات میں کیے جاتے ہیں۔ 4۔ (قَدَر): قدرت وطاقت،اس رات میں اللہ کی قدرت کا ظہورہوتا ہے ایک رات کی عبادت ایک ہزار مہینوں سے زیادہ اجروثواب کا باعث بنتی ہے،ہرکام کی انجام دہی کے لیے اپنے رب کے حکم سے فرشتے اورجبرائیل آتے ہیں، ہرطرف مسلمانوں اور مومنوں کے لیے سلامتی پھیل جاتی ہے۔ 2۔ ﴿لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾: ﴿لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ﴾ خیروبرکت اور بڑھوتری اور فیضان الٰہی کی رات ہے، اس میں قرآن جیسی مبارک کتاب نازل ہوئی ہے، فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ ہم نے اسے قدرومنزلت والی رات میں اتارا ہے اوردوسری جگہ فرمایا: ﴿إِنَّا أَنـزلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ﴾ اور قرآن مجید کا نزول ماہ رمضان میں ہوا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ﴾ رمضان کا مہینہ ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ہے، لہٰذا اس سے یہ بات طے ہو گئی کہ لیلۃ القدر رمضان سے باہر نہیں ہے لیکن یہ رات کون سی ہے؟ اس کا قطعی تعین مشکل ہے کیونکہ اس کی تعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خواب میں کئی دفعہ ہوئی اور ہر دفعہ کسی نہ کسی سبب سے آپ بھول گئے، اسی لیے کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: اس کو رمضان کی آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو، کبھی فرمایا، اس کو آخری سات راتوں میں تلاش کرو اور کبھی فرمایا: اس کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو اور کبھی آپﷺ نے اس کی علامت اور نشانی بتلائی، اس طرح آپﷺ نے اس کو متعین نہیں فرمایا تاکہ لوگ عبادت کو کسی ایک رات کے ساتھ مخصوص نہ کریں، اس لیے علماء میں اس کی تعین کے بارے میں بہت اختلاف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں پینتالیس (45) اقوال نقل کیے ہیں، صحیح بات یہ ہے کہ یہ آخری عشرہ کی طاق رات ہے اور اس میں بدلتی رہتی ہے، اگرچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان کردہ قرائن کہ اللہ کا پسندیدہ عدد طاق ہے اور طاق اعداد میں زیادہ پسندیدہ عدد سات ہے۔ سات زمینیں، سات آسمان، سات دن، سات طواف، سات اعضائے سجود، سات دفعہ سعی اور لیلۃ القدر میں نو حروف ہیں۔ اور یہ لفظ اس سورۃ میں تین دفعہ آیا ہے لہٰذا ستائیس حروف ہوئے وغیرہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یقین سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی زیادہ گردش ستائیسویں میں ہے، لیکن یہ نہیں کہ ہر دفعہ یہی رات ہو۔ 3۔ شب قدر: اپنے اپنے علاقوں یا ملکوں کے اعتبار سے ہے اور ہرملک کے لوگ طاق رات کی تعین اپنے روزوں کے اعتبار سے کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported: We were talking about Lailat-ul-Qadr in the presence of the Messenger of Allah (ﷺ) and he said: He who amongst you remembers (the night) when the moon arose and it was like a piece of plate (at the fag end of the month in a state of waning).