باب: عمرے کا احرام باندھنے والے کا احرام ‘صفا مروہ کی سعی سے پہلےصرف طواف کرنے سے ختم نہیں ہوتا ‘حج کا احرام باندھنے والا(صرف)طواف قدوم سے حلّت میں نہیں آتا ‘اسی طرح حج قران کرنے والے کا حکم ہے (طواف سے اس کا احرام ختم نہیں ہو گا
)
Muslim:
The Book of Pilgrimage
(Chapter: Clarifying that the pilgrim who has entered Ihram for Umrah should not exit Ihram after performing Tawaf before Sa'i; And the pilgrim who has entered Ihram for Hajj should not exit Ihram after performing Tawaf Al-Qudum, and the same applies to the pilgrim performing Qiran)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1235.
محمد بن عبدالرحمان سے روایت ہے کہ ایک عراقی شخص نے ان سے کہا: میری طرف سے عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس شخص کے بارے میں سوال کیجئے جو حج کا تلبیہ پکارتا ہے، جب وہ بیت اللہ کا طواف کرلے تو کیا احرام سے آزاد ہو جائے گا یا نہیں؟ اگر وہ تمھیں جواب دیں کہ وہ آزاد نہیں ہو گا تو ان سے کہنا کہ ایک شخص ہے جو یہ کہتا ہے (محمد بن عبدالرحمان نے) کہا: میں نے عروہ سے اس کی بابت سوال کیا تو ا نھوں نے کہا: جو شخص حج کا احرام باندھے، وہ حج کیے بغیر احرام سے فارغ نہیں ہو گا۔ میں (محمد بن عبدالرحمان) نے عرض کی کہ ایک شخص ہے جو یہی بات کہتا ہے انھوں نے فرمایا: کتنی بری بات ہے جو اس نے کہی ہے۔ پھر میرا ٹکراؤ (اس عراقی) شخص سے ہوا تو اس نے مجھ سے (اپنے سوال کے متعلق) پوچھا۔ میں نے اسے بتا دیا۔ اس (عراقی) نے کہا: ان (عروہ) سے کہو، بلاشبہ ایک شخص خبر دے رہا تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا حکم کیا تھا (حکم دیا تھا) حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کیا معاملہ تھا؟ انھوں نے (بھی تو) ایسا کیا تھا۔ (محمد بن عبدالرحمان نے) کہا: میں ان (عروہ) کے پاس آیا اور ان کو یہ بات سنائی۔ انھوں نے پوچھا: یہ (سائل) کون ہے؟ میں نے عرض کی: میں نہیں جانتا۔ انھوں نے کہا: اسے کیا ہے؟ وہ خود میرے پاس آ کرمجھ سے سوال کیوں نہیں کرتا؟ میرا خیال ہے، وہ کوئی عراقی ہو گا۔ میں نے کہا: میں نہیں جانتا۔ (عروہ نے) کہا: بلاشبہ اس نے جھوٹ بولا ہے۔ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نےخبر دی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا، مکہ آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام سب سے پہلے کیا، یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور پھر بیت اللہ کا طواف کیا۔ پھر ان کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی حج کیا، انھوں نے بھی، سب سے پہلے جو کیا، یہی تھا کہ بیت اللہ کا طواف کیا اور اس کےسوا کوئی کام نہ کیا (نہ بال کٹوائے نہ احرام کھولا)، پھرحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ پھرحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کیا۔ میں نےانھیں دیکھا، انھوں نے بھی سب سے پہلا کام جس سے آغاز کیا، بیت اللہ کا طواف تھا، پھر اس کے بعد اس کے علاوہ کوئی کام نہ ہوا۔ پھر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (نے بھی ایسا ہی کیا) پھر میں نے اپنے والد زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حج کیا، انھوں نے بھی سب سے پہلے جس سے آغاز کیا بیت اللہ کا طواف تھا اور اس کے علاوہ کوئی نہ تھا، پھر میں نے مہاجرین وانصار (کی جماعت) کو بھی ایسا ہی کرتے دیکھا۔ اس کے بعد (بال کٹوانا احرام کھولنا) کوئی کام نہ ہوا۔ پھر سب سے آخر میں جسے میں نے یہ کرتے دیکھا وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ انہوں نے بھی عمرے کے ذریعے سے اپنے حج کو فسخ نہیں کیا، اور یہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کے پاس موجود ہیں۔ یہ انھی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے؟ اور نہ گزرے ہوئے لوگوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) میں سے کسی نے (یہ کام) کیا۔ وہ (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) جب بھی بیت اللہ میں قدم رکھتے تو طواف سے پہلے اور کسی چیز سے ابتداء نہ کرتے تھے (طوا ف کرنے کے بعد) احرام نہیں کھولتے تھے۔ میں نے اپنی والدہ اور خالہ کو بھی دیکھا، وہ جب بھی مکہ آتیں طواف سے پہلے کسی اور کام سے آغاز نہ کرتیں، اس کا طواف کرتیں، پھر احرام نہ کھولتیں (حتیٰ کہ حج پورا کر لیتیں) میری والدہ نے مجھے بتایا کہ وہ ، ان کی ہمشیرہ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فلاں فلاں لوگ کسی وقت عمرہ کے لئے آئے تھے، جب انھوں نے حجر اسود کا استلام کر لیا (اور عمرہ مکمل ہو گیا) تو (اس کے بعد) انھوں نے احرام کھولا۔ اس شخص نے اس کے بارے میں جس بات کا ذکر کیا ہے، اس میں جھوٹ بولا ہے۔
تشریح:
فائدہ:
جن کا احرام حج کے لئے تھا، انھوں نے طواف کے بعد احرام نہیں کھولا اور جن کا احرام عمرے تک کے لئے تھا، انھوں نے بیت اللہ اور صفا مروہکے طواف کے بعد احرام کھول دیا۔
محمد بن عبدالرحمان سے روایت ہے کہ ایک عراقی شخص نے ان سے کہا: میری طرف سے عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس شخص کے بارے میں سوال کیجئے جو حج کا تلبیہ پکارتا ہے، جب وہ بیت اللہ کا طواف کرلے تو کیا احرام سے آزاد ہو جائے گا یا نہیں؟ اگر وہ تمھیں جواب دیں کہ وہ آزاد نہیں ہو گا تو ان سے کہنا کہ ایک شخص ہے جو یہ کہتا ہے (محمد بن عبدالرحمان نے) کہا: میں نے عروہ سے اس کی بابت سوال کیا تو ا نھوں نے کہا: جو شخص حج کا احرام باندھے، وہ حج کیے بغیر احرام سے فارغ نہیں ہو گا۔ میں (محمد بن عبدالرحمان) نے عرض کی کہ ایک شخص ہے جو یہی بات کہتا ہے انھوں نے فرمایا: کتنی بری بات ہے جو اس نے کہی ہے۔ پھر میرا ٹکراؤ (اس عراقی) شخص سے ہوا تو اس نے مجھ سے (اپنے سوال کے متعلق) پوچھا۔ میں نے اسے بتا دیا۔ اس (عراقی) نے کہا: ان (عروہ) سے کہو، بلاشبہ ایک شخص خبر دے رہا تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا حکم کیا تھا (حکم دیا تھا) حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کیا معاملہ تھا؟ انھوں نے (بھی تو) ایسا کیا تھا۔ (محمد بن عبدالرحمان نے) کہا: میں ان (عروہ) کے پاس آیا اور ان کو یہ بات سنائی۔ انھوں نے پوچھا: یہ (سائل) کون ہے؟ میں نے عرض کی: میں نہیں جانتا۔ انھوں نے کہا: اسے کیا ہے؟ وہ خود میرے پاس آ کرمجھ سے سوال کیوں نہیں کرتا؟ میرا خیال ہے، وہ کوئی عراقی ہو گا۔ میں نے کہا: میں نہیں جانتا۔ (عروہ نے) کہا: بلاشبہ اس نے جھوٹ بولا ہے۔ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نےخبر دی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا، مکہ آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام سب سے پہلے کیا، یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور پھر بیت اللہ کا طواف کیا۔ پھر ان کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی حج کیا، انھوں نے بھی، سب سے پہلے جو کیا، یہی تھا کہ بیت اللہ کا طواف کیا اور اس کےسوا کوئی کام نہ کیا (نہ بال کٹوائے نہ احرام کھولا)، پھرحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ پھرحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کیا۔ میں نےانھیں دیکھا، انھوں نے بھی سب سے پہلا کام جس سے آغاز کیا، بیت اللہ کا طواف تھا، پھر اس کے بعد اس کے علاوہ کوئی کام نہ ہوا۔ پھر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (نے بھی ایسا ہی کیا) پھر میں نے اپنے والد زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حج کیا، انھوں نے بھی سب سے پہلے جس سے آغاز کیا بیت اللہ کا طواف تھا اور اس کے علاوہ کوئی نہ تھا، پھر میں نے مہاجرین وانصار (کی جماعت) کو بھی ایسا ہی کرتے دیکھا۔ اس کے بعد (بال کٹوانا احرام کھولنا) کوئی کام نہ ہوا۔ پھر سب سے آخر میں جسے میں نے یہ کرتے دیکھا وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ انہوں نے بھی عمرے کے ذریعے سے اپنے حج کو فسخ نہیں کیا، اور یہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کے پاس موجود ہیں۔ یہ انھی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے؟ اور نہ گزرے ہوئے لوگوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) میں سے کسی نے (یہ کام) کیا۔ وہ (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) جب بھی بیت اللہ میں قدم رکھتے تو طواف سے پہلے اور کسی چیز سے ابتداء نہ کرتے تھے (طوا ف کرنے کے بعد) احرام نہیں کھولتے تھے۔ میں نے اپنی والدہ اور خالہ کو بھی دیکھا، وہ جب بھی مکہ آتیں طواف سے پہلے کسی اور کام سے آغاز نہ کرتیں، اس کا طواف کرتیں، پھر احرام نہ کھولتیں (حتیٰ کہ حج پورا کر لیتیں) میری والدہ نے مجھے بتایا کہ وہ ، ان کی ہمشیرہ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فلاں فلاں لوگ کسی وقت عمرہ کے لئے آئے تھے، جب انھوں نے حجر اسود کا استلام کر لیا (اور عمرہ مکمل ہو گیا) تو (اس کے بعد) انھوں نے احرام کھولا۔ اس شخص نے اس کے بارے میں جس بات کا ذکر کیا ہے، اس میں جھوٹ بولا ہے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
جن کا احرام حج کے لئے تھا، انھوں نے طواف کے بعد احرام نہیں کھولا اور جن کا احرام عمرے تک کے لئے تھا، انھوں نے بیت اللہ اور صفا مروہکے طواف کے بعد احرام کھول دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ ایک عراقی آدمی نے مجھے یہ کہا، میری خاطر، عروہ بن زبیر سے دریافت کیجئے، ایک آدمی حج کا احرام باندھتا ہے، تو جب وہ بیت اللہ کا طواف کر لیتا ہے، تو کیا وہ حلال ہو جائے گا یا نہیں؟ اگر وہ تمہیں یہ جواب دیں کہ وہ حلال نہیں ہو گا، تو ان سے کہنا، ایک آدمی اس کا قائل ہے، تو میں نے عروہ سے اس کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے کہا، جو حج کا احرام باندھتا ہے، وہ حج سے فراغت کے بعد حلال ہو گا، میں نے کہا، ایک آدمی کا یہی قول ہے، تو انہوں نے کہا، ان سے کہنا، ایک آدمی بتاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا ہے، اور کیا وجہ ہے حضرت اسماء اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بھی ایسا کیا ہے، میں ان (عروہ) کے پاس آیا، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا، انہوں نے کہا، یہ سائل کون ہے؟ میں نے کہا، میں نہیں جانتا، انہوں نے کہا، کیا وجہ ہے وہ خود آ کر مجھ سے سوال کیوں نہیں کرتا؟ میرا گمان ہے وہ عراقی ہے، میں نے کہا، مجھے معلوم نہیں، انہوں نے کہا، اس نے غلط کہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا، تو مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پہنچ کر سب سے پہلا کام یہ کیا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر بیت اللہ کا طواف کیا، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کیا، اور سب سے پہلا کام یہی کیا کہ بیت اللہ کا طواف کیا، پھر وہ حج کے سوا نہیں بنا، پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسے ہی کیا، پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کیا، میں نے انہیں دیکھا، انہوں نے سب سے پہلے بیت اللہ کا طواف کیا، اور وہ حج کے سوا نہیں بنا، پھر میں نے اپنے باپ زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حج کیا، انہوں نے بھی سب سے پہلا کام یہی کیا کہ بیت اللہ کا طواف کیا، پھر وہ حج کے سوا نہیں بنا، پھر میں نے مہاجرین اور انصار کو ایسے کرتے دیکھا، لیکن ان کا حج ہی رہا (یعنی کسی کا حج طواف قدوم سے فسخ ہو کر عمرہ نہیں بنا) پھر آخری شخص جس کو میں نے یہ کام کرتے دیکھا، وہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، انہوں نے حج کو فسخ کر کے عمرہ نہیں بنایا، یہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود ہیں، ان سے کیوں نہیں پوچھتے؟ جو صحابہ کرام فوت ہو چکے ہیں، جب وہ مکہ میں قدم رکھتے، بیت اللہ کے طواف سے پہلے کوئی کام نہیں کرتے تھے، پھر وہ حلال نہیں ہوتے تھے، میں نے اپنی والدہ اور خالہ (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کو دیکھا ہے، وہ جب آتی ہیں، طواف سے پہلے کوئی کام نہیں کرتی ہیں، اس کے باوجود حلال نہیں ہوتی ہیں، اور مجھے میری والدہ نے بتایا ہے کہ وہ اس کی بہن، زبیر اور فلاں فلاں نے فقط عمرہ کیا، جب انہوں نے رکن اسود کا بوسہ لیا، تو حلال ہو گئے، عراقی نے جو بیان کیا ہے وہ غلط ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
1۔ اس حدیث سے ثابت ہوا طواف بیت اللہ سے پہلے وضو کرنا ضروری ہےامام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کے نزدیک طواف کے لیے با وضو ہونا شرط ہے اس کے بغیر طواف نہیں ہو گا۔ احناف کے نزدیک طہارت شرط نہیں ہے بلکہ واجب ہے اگر بلا طہارت طواف کرے گا تو طواف ہو جائے لیکن ترک واجب کی بنا پر ایک بکری کی قربانی دینی ہو گی۔ 2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف یہ ہے کہ جو انسان حج افراد کا احرام باندھتا ہے اگر وہ قربانی ساتھ نہیں لاتا اور آ کر بیت اللہ کا طواف کر لیتا ہے تو اس کا یہ طواف اور سعی عمرہ میں بدل جائیں گے اور حج فسخ ہو جائے گا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں یہی حکم دیا تھا کہ جن کے پاس ہدی نہیں ہے وہ سب حلال ہو جائیں اور اس حدیث کا آخری حصہ: (فَلَمَّا مَسَحُوا الرُّكْنَ حَلُّوا)(وہ رکن اسود کو بوسہ دینے سے فارغ ہو گئے (حلال ہوگئے)) یعنی جب انھوں نے طواف قدوم کر لیا اور اس کے بعد سعی کر لی تو حلال ہو گئے یہی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نظریہ ہے اور جو لوگ حلال نہیں ہوئے وہ وہی تھے جن کے پاس قربانیاں تھیں لیکن اکثر آئمہ اور بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا موقف یہ ہے فسخ کا حکم حجۃ الوداع سے خاص ہے اب طواف کا آغاز کرنے کے بعد حج کو فسخ نہیں کیا جا سکتا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ بیت اللہ کے طواف کے بعد اور سعی سے پہلے وہ حلال ہو جائے گا، بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ جس کے پاس قربانی نہیں ہے اور بیت اللہ کا طواف کر لیتا ہے تواب اس کو سعی کر کے حلال ہونا پڑے گا اگر وہ جس کے پاس قربانی نہیں ہے اور وہ بیت اللہ کا طواف کر لیتا ہے تو اب اس کو سعی کر کے حلال ہونا پڑے گا اگر وہ حلال نہیں ہونا چاہتا تو بیت اللہ کا طواف قدوم نہ کرے حج کے لیے طواف افاضہ ہی کرے اور حدیث کے آخر میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حلال ہونے والوں میں شمار کیا گیا ہے یہ اس اعتبار سے تو درست ہے کہ انھوں نے حج تمتع کی نیت کرلی تھی، جس میں عمرہ کر کے انسان حلال ہو جاتا ہے لیکن بعد میں جب انہیں حیض آنے لگا تو وہ اپنی اس نیت پر عمل نہیں کر سکیں تھیں کیونکہ وہ بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتی تھی اس لیے ان کی طرف حلال ہونے کی نسبت محض نیت اور ارادہ کے اعتبار سے ہے عملاً ایسا نہیں ہوا، حضرت عروہ نے سب حضرات کے طواف کا تذکرہ کیا ہے سعی کو نظر انداز کر دیا ہے کیونکہ یہ تو معلوم ہی ہے سب نے طواف کے بعد سعی کی تھی ان کا مقصد صرف یہ بیان کرنا ہے کہ طواف وسعی سے حلال ہونا ضروری نہیں ٹھہرتا یہ سب حضرات قارن تھے اور ان کے پاس قربانیاں تھیں اس لیے ان کا احرام نہ کھولنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف دلیل نہیں بن سکتا اور نہ ہی اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سعی ضروری نہیں ہے کیونکہ سعی عمرہ اور حج کا رکن ہے اس کے بغیر نہ عمرہ ہو سکتا ہے اور نہ حج امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور باقی محدثین رحمۃ اللہ علیہم کا یہی موقف ہے لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی واجب ہے لیکن رکن نہیں ہے، امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا موقف بھی یہی ہے اگر رہ جائے تو ایک جانور کی قربانی سے تلافی ہو سکتی ہے، بعض صحابہ و تابعین کا نظریہ یہ ہے کہ یہ سنت ہے نہ رکن ہے اور نہ واجب سوال یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوحسنہ ہونے کا تقاضا کیا ہے فقہی موشگافیوں کی بجائے ایک مسلمان کے پیش نظر ہر عمل میں یہ رہنا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام کیسے کیا جب کہ یہ فرمان بھی موجود ہے (صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي) (میری طرح نماز پڑھو) (خُذُوا عَنِّي مَناسِكَكُمْ) (حج میں میرے طرز عمل کو اپناؤ) تو اس لیے ہر کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق کیا جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Muhammad bin 'Abdul Rahman reported: A person from Iraq said to him to inquire from 'Urwa bin Zubair for him whether a person who puts on Ihram for Hajj is allowed to put it off or not as he circumambulates the House. And if he says:" No, it can't be put off," then tell him that there is a person who makes such an assertion. He (Muhammad bin 'Abdul Rahman) then said: I asked him (Urwa bin Zubair), where- upon he said: The person who has entered into the state of Ihram for Hajj cannot get out of it unless he has, completed the Hajj I (further) said (to him): (What) if a person makes that assertion? Thereupon he said: It is indeed unfortunate that he makes such an assertion. That person ('Iraqi) then met me and he asked me and I narrated to him (the reply of 'Urwa), whereupon he (the Iraqi) said: Tell him ('Urwa) that a person had informed him that Allah's Messenger (ﷺ) had done that; and why is it that Asma' and Zubair have done like this? He (Muhammad bin 'Abdul Rahman) said: I went to him and made a mention of that to him, whereupon he ('Urwa) said: Who is he (the 'Iraqi)? I said: I do not know, whereupon he said: What is the matter that he does not come to me himself and ask me? I suppose he is an 'Iraqi. I said: I do not know, whereupon he said: He has told a lie. Allah's Messenger (ﷺ) performed Hajj, and 'A'isha (Allah be pleased with her) has told me that the first thing with which he commenced (the rituals) when he arrived at Makkah was that he performed ablution and then circumambulated the Ka’bah. Then Abu Bakr (RA) performed Hajj and the first thing with which he commenced (the Hajj) as the circumambulation of the Ka’bah and nothing besides it. So did 'Umar. Then 'Uthman performed Hajj and I saw that the first thing with which he commenced the Hajj was the circumambulation of the Ka’bah and nothing besides it. Then Mu'awiyah and'Abdullah bin 'Umar did that. Then I performed Hajj with my father Zubair bin al-'Awwam, and the first thing with which he commenced (Hajj) was the circumambulation of the House. He then did nothing besides it. I then saw the emigrants (Muhajirin) and the helpers (Ansar) doing like this and nothing besides it. And the last one whom I saw doing like this was Ibn 'Umar. And he did not break it (the Hajj) after performing 'Umrah. And Ibn 'Umar is with them. Why don't they ask him (to testify it)? And none amongst those who had passed away commenced (the rituals of Hajj) but by circumambulating the Ka’bah on their (first arrival) and they did not put off Ihram (without completing the Hajj), and I saw my mother and my aunt commencing (their Hajj) with the circumambulation of the House, and they did not put off Ihram. My mother informed me that she came and her sister, and Zubair and so and so for 'Umrah, and when they had kissed the corner (the Black Stone, after Sa'I and circumambulation), they put off Ihram. And he (the 'Iraqi) has told a lie in this matter.