صحیح مسلم
18. کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
2. باب: جو شخص کسی عورت کو دیکھے اور وہ اس کے دل میں بس جائے تو اس کے لئے مستحب ہے کہ اپنی بیوی یا زرخرید کنیز کے پاس آ کر اس سے صحبت کر لے
صحيح مسلم
18. كتاب النكاح
2. بَابُ نَدْبِ مَنْ رَأَى امْرَأَةً فَوَقَعَتْ فِي نَفْسِهِ، إِلَى أَنْ يَأْتِيَ امْرَأَتَهُ أَوْ جَارِيَتَهُ فَيُوَاقِعَهَا
Muslim
18. The Book of Marriage
2. Chapter: Recommendation to the one who sees a woman and is attracted to her, to go to his wife or slave woman and have intercourse with her
باب: جو شخص کسی عورت کو دیکھے اور وہ اس کے دل میں بس جائے تو اس کے لئے مستحب ہے کہ اپنی بیوی یا زرخرید کنیز کے پاس آ کر اس سے صحبت کر لے
)
Muslim:
The Book of Marriage
(Chapter: Recommendation to the one who sees a woman and is attracted to her, to go to his wife or slave woman and have intercourse with her)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1403.
ہشام بن ابی عبداللہ نے ابو زبیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ایک عورت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے، وہ اپنے لیے ایک چمڑے کو رنگ رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (گھر میں) اپنی ضرورت پوری فرمائی، پھر اپنے صحابہ کی طرف تشریف لے گئے، اور فرمایا: ’’بلا شبہ (فتنے میں ڈالنے کے حوالے سے) عورت شیطان کی صورت میں سامنے آتی ہے اور شیطان ہی کی صورت میں مڑ کر واپس جاتی ہے۔ تم میں سے کوئی جب کسی عورت کو دیکھے تو وہ اپنی بیوی کے پاس آ جائے، بلاشبہ یہ چیز اس خواہش کو ہٹا دے گی جو اس کے دل میں (پیدا ہوئی) ہے۔‘‘
تشریح:
فوائدومسائل
شیطان عورتوں کو مردوں کے دل میں برائی پیدا کر نے کا سبب بناتا ہے۔ اس میں عورت قصور وار نہیں البتہ اس کا فرض ہے کہ وہ خود کو ڈھانپ کر رکھے۔ اگر ایسا نہیں کرتی تو وہ بھی قصور وار ہوگی۔ حلال کی طرف رجوع کرنے سے حرام کی جھوٹی چمک دمک ماند پڑ جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی تو اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم عطا کیا گیا کہ اس سے مردوں کی آزمائش ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر گئے اور اس وقت آپ کو علم عطا کیا گیا کہ یہ شیطان کے فتنے پر قابو پانے کا ذریعہ ہے۔
ازدواج اور گھر بسانا انسان کی فطری ضرورت ہے۔ انسانی نسل کے آگے بڑھنے کا ذر یعہ بھی میں ہے۔ یہ معاملہ مرد و عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت اور اس کے عطا کردہ فطری اصولوں کی روشنی میں ملک باہمی رضامندی
سے طے ہونا چاہیے۔ اور فریقین کو طے شدہ معاہدے کی پابندی کا عہد اللہ کے نام پر کرنا چاہیے۔ ایسے مکمل معاہدے کے بغیر عورت اور مرد کا اکٹھا ہونا، بظاہر جتنا بھی آسان لگے معاشرے اورنسل کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ جن معاشروں نے اس طرح کی زندگی کی اجازت دی ہے، وہاں مائیں اور ان کے بچے شدید مصائب میں گرفتار اور تباہی کا شکار ہیں۔
کتاب النکاح میں امام مسلم نے سب سے پہلے وہ احادیث بیان کیں جن میں نکاح کی تلقین ہے۔ اس تلقین میں یہ بات بطور خاص ملحوظ رکھی گئی ہے کہ شادی کے معاملے میں مکمل باہمی رضامندی ہو لیکن مالی طور پر یا کسی اور طرح سے شادی کو مشکل نہ بنایا جائے ۔ مرد، عورت اور بچوں سمیت تمام فریقوں کے حقوق تبھی محفوظ رہ سکتے ہیں جب یہ معاہدہ مستقل ہو، ہمیشہ نبھانے کی نیت سے کیا جائے۔ تھوڑے سے عرصے کے لیے کیا گیا معاہدہ ( نکاح متعہ جو قدیم زمانے سے پورے معاشرے میں رائج تھا) اسلام نے تدریج سے کام لیتے ہوئے قطعی طور پر حرام قرار دیا۔ بعض لوگوں کو رسول اللہﷺ کی طرف سے جاری کردہ قطعی اور ابدی حرمت کاحکم نہ سکا تھا لیکن خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر اور بعدازاں حضرت علیؓ نے اہتمام کیا کہ نکاح متعہ کی امت کا حکم سب لوگوں تک پہنچ جائے۔
پہلے سےرائج نکاح کی ممنوعہ صورتوں میں سے دوسری صورت نکاح شغار کی ہے جس میں ایک عورت کا حق مہر دوسری عورت کا نکاح ہوتا ہے۔ اسلام نے اس بات کا خاص طور پر اہتمام کیا ہے کہ نکاح کا معاہدہ سوچ سمجھ کر کیا جائے ، مرد نکاح سے پہلے ہونے والی بیوی کو دیکھ بھی لے، نکاح کے ذریعے سے ایک ساتھ اسی عورتیں یکجا نہ ہوں جن کا آپس میں خون کا قریبی رشتہ ہوتا کہ خون کا رشتہ نے رشتے کا بھینٹ نہ چڑھے اور پہلے سے قائم شدہ خاندانی تعلق داؤ پر نہ لگے۔ جب نکاح کا معاملہ شروع ہو جائے تو اس میں کسی طرح سے غلط مداخلت نہ ہو اور دلجمعی اور آزادی سے اس معاملے کے ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد یہ معاہدہ اچھی طرح سے طے ہو جائے۔ اسلام نے یہ متعین کر دیا ہے کہ خاندان کی طرف سے ولی ( باپ، بھائی وغیرہ) اور نکاح کرنے والے نوجوانوں سب کی دلی رضا مندی اس میں شامل ہوتا کہ یہ معاہدہ نہ صرف ہمیشہ قائم رہے، کھینچا تانی سے محفوظ رہے بلکہ اسے دونوں طرف سے پورے خاندانوں کی حمایت حاصل رہے۔ نکاح اور شادی کے معاملات میں مختلف معاشروں میں جو توہمات موجود ہوتے ہیں۔
اسلام نے ان کی بھی تردید کی ہے۔ اس بات کو بھی ناپسندیدہ قرار دیا کہ شادی صرف امیر اور اعلی طبقے میں کرنے کی کوشش کی جائے ۔ رسول اللہﷺ نے اپنی کنیز کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کو نیکی کا بہت بڑا عمل قرار دیا۔ اب کنیزیں میں موجودنہیں لیکن محروم طبقات کی دیندار خواتین سے شادی کے ذریعے، آپ ﷺ کی اس تر غیب پرعمل کی صورت موجود ہے۔ ایسی شادی اگر الله کی رضا کے لیے کی جائے تو یقینا خاندان اور آیندہ نسلوں کے لیے حددرجہ باعث برکت ثابت ہوتی ہے۔ اس کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ امام مسلم نے اس کتاب میں خود رسالت ماب ﷺکے نکاحوں اور شادیوں کے خوبصورت نمونوں کے حوالے سے تفصیلی روایتیں پیش کی ہیں۔ ان کے ضمن میں خاندانی رویوں بیوی کا احترام و اکرام ، شادی کی خوشی میں سب کی شرکت کے لیے ولیمے کے اہتمام کی انتہائی خوبصورت تفصیلات سامنے آتی ہیں۔ اس بات کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ شادی کی خوشی میں و لیمے میں ) بلائے جانے پر ہر صورت شرکت کی جائے اور ولیمہ کرنے والوں کو بطور خاص کہا گیا ہے کہ وہ ولیمے کو امراء کا مجمع نہ بنائیں ، تمام حلقوں کے لوگوں خصوصا فقراء کو بڑے اکرام سے اس میں شرکت کی دعوت دیں۔
ساری کوششوں کے باوجود نکاح کے معاہدے میں کوئی مسئلہ بھی پیدا ہوسکتا ہے اور طلاق کی نوبت بھی آسکتی ہے، اس لیے امام مسلم نے ضمنا اس کے ضروری پہلووں کی وضاحت کے لیے احادیث مبارکہ بیان کی ہیں۔ آخر میں وہ احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں میاں بیوی کے تعلق میں باہمی رشتوں کے تحفظ اور نئی نسل کی فلاح کے بارے میں ہدایات ہیں ۔ ہر معاملے میں ان باتوں کی وضاحت سے نشاندہی کر دی گئی جن سے احتراز ضروری ہے۔
ہشام بن ابی عبداللہ نے ابو زبیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ایک عورت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے، وہ اپنے لیے ایک چمڑے کو رنگ رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (گھر میں) اپنی ضرورت پوری فرمائی، پھر اپنے صحابہ کی طرف تشریف لے گئے، اور فرمایا: ’’بلا شبہ (فتنے میں ڈالنے کے حوالے سے) عورت شیطان کی صورت میں سامنے آتی ہے اور شیطان ہی کی صورت میں مڑ کر واپس جاتی ہے۔ تم میں سے کوئی جب کسی عورت کو دیکھے تو وہ اپنی بیوی کے پاس آ جائے، بلاشبہ یہ چیز اس خواہش کو ہٹا دے گی جو اس کے دل میں (پیدا ہوئی) ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل
شیطان عورتوں کو مردوں کے دل میں برائی پیدا کر نے کا سبب بناتا ہے۔ اس میں عورت قصور وار نہیں البتہ اس کا فرض ہے کہ وہ خود کو ڈھانپ کر رکھے۔ اگر ایسا نہیں کرتی تو وہ بھی قصور وار ہوگی۔ حلال کی طرف رجوع کرنے سے حرام کی جھوٹی چمک دمک ماند پڑ جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی تو اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم عطا کیا گیا کہ اس سے مردوں کی آزمائش ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر گئے اور اس وقت آپ کو علم عطا کیا گیا کہ یہ شیطان کے فتنے پر قابو پانے کا ذریعہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک عورت پر پڑ گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں آئے اور وہ ایک کھال کو رنگنے کے لیے مل رہی تھیں، ان سے اپنی خواہش پوری کی، پھر باہر ساتھیوں کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’عورت شیطان کی شکل میں سامنے آتی ہے اور شیطان کی شکل میں واپس مڑتی ہے، تو جب تم میں سے کسی کی نظر کسی عورت پر پڑ جائے (اور اس کا خیال دل میں جگہ بنا لے) تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے (اور اپنی ضرورت پوری کر لے) تو اس سے اس کے دل کے خیالات ختم ہو جائیں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) تَمْعَسُ: وہ مل رہی تھیں۔ (2) سَنِيْئَةٌ: وہ کھال جو دباغت کے لیے پھیلائی جائے۔ (3) تُقْبِلُ الْمَرْأَةَ وَتُدْبِرُ فِيْ صُوْرَةِ شَيْطَان: جس طرح شیطان انسان کو برے خیالات وافکار اور برے اعمال وافعال پر آمادہ اور برانگیختہ کرتا ہے،اور راہ راست سے ورغلاتا ہے، اس طرح عورت کی آمدو رفت، انسان کے دل میں شہوانی خیالات و تصورات کو ابھارتی ہے، اور انسان اس کو جنسی تصورات سے دیکھتا ہے اوراس کے دل و دماغ پر شہوانی خیالات چھا جاتے ہیں، اور اس میں ہیجان انگیز حرکات ابھرتی ہیں۔
فوائد ومسائل
جب انسان کی کسی عورت پر نظر پڑجائے، اور اس کے تصورات دل میں جم جائیں جس سے اس کے دل میں جنسی ہیجان پیدا ہو جائے، اسے دیکھ کر اس کے دل میں اس کی طرف رغبت اور میلان پیدا ہو تو وہ بجائے اس کے کہ نظر بازی میں مبتلا ہو وہ اگرشادی شدہ ہے فوراً اپنی بیوی کے پاس آ کر، اپنی خواہش پوری کر لے، اگرچہ دن کا وقت ہوا اور وہ کسی کام کام میں مصروف ہو، اوربیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی صورت میں اپنا کام کاج چھوڑ کر، اپنے خاوند کے پاس آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ امت کے لیے اسوہ اور نمونہ ہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت حال کا ادراک کر کے امت کو اپنے قول اور عمل سے اس کا حل بتا دیا تاکہ انسان سار ادن ان خیالات میں کھویا نہ رہے، لیکن اگر انسان غیر شادی شدہ ہے، تو وہ فوراً نظر بازی یا دیدہ پھاڑنے سے باز آئے اور شیطان سے اللہ کی پناہ میں آئے یعنی ﴿اَعُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم﴾ کا ورد کرے اور ان خیالات کو جھٹک دے، اگراستطاعت ہو تو فوراً شادی کا بندوبست کرے، وگرنہ روزوں کے ذریعے ضبط نفس کا ملکہ پیدا کرے، اگر وہ شہوانی اور جنسی خیالات کا اسیر رہے گا تو اس سے اس کا ہی دل ودماذغ اور بدن ونظر متاثر ہوں گے اور اس میں اخلاقی بگاڑ پیدا ہو گا جس سے اس کی قوت کارمتاثر ہو گی، اس طرح دینی ودنیوی نقصانات کا شکار ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir reported that Allah's Messenger (ﷺ) saw a woman, and so he came to his wife, Zainab, as she was tanning a leather and had sexual intercourse with her. He then went to his Companions and told them: The woman advances and retires in the shape of a devil, so when one of you sees a woman, he should come to his wife, for that will repel what he feels in his heart.