Muslim:
The Book of Marriage
(Chapter: Prohibition and invalidity of Shighar Marriage)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1417.
ابن جریج نے ہمیں خبر دی، کہا: مجھے ابوزبیر نے بتایا کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علبہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا۔
ازدواج اور گھر بسانا انسان کی فطری ضرورت ہے۔ انسانی نسل کے آگے بڑھنے کا ذر یعہ بھی میں ہے۔ یہ معاملہ مرد و عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت اور اس کے عطا کردہ فطری اصولوں کی روشنی میں ملک باہمی رضامندی
سے طے ہونا چاہیے۔ اور فریقین کو طے شدہ معاہدے کی پابندی کا عہد اللہ کے نام پر کرنا چاہیے۔ ایسے مکمل معاہدے کے بغیر عورت اور مرد کا اکٹھا ہونا، بظاہر جتنا بھی آسان لگے معاشرے اورنسل کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ جن معاشروں نے اس طرح کی زندگی کی اجازت دی ہے، وہاں مائیں اور ان کے بچے شدید مصائب میں گرفتار اور تباہی کا شکار ہیں۔
کتاب النکاح میں امام مسلم نے سب سے پہلے وہ احادیث بیان کیں جن میں نکاح کی تلقین ہے۔ اس تلقین میں یہ بات بطور خاص ملحوظ رکھی گئی ہے کہ شادی کے معاملے میں مکمل باہمی رضامندی ہو لیکن مالی طور پر یا کسی اور طرح سے شادی کو مشکل نہ بنایا جائے ۔ مرد، عورت اور بچوں سمیت تمام فریقوں کے حقوق تبھی محفوظ رہ سکتے ہیں جب یہ معاہدہ مستقل ہو، ہمیشہ نبھانے کی نیت سے کیا جائے۔ تھوڑے سے عرصے کے لیے کیا گیا معاہدہ ( نکاح متعہ جو قدیم زمانے سے پورے معاشرے میں رائج تھا) اسلام نے تدریج سے کام لیتے ہوئے قطعی طور پر حرام قرار دیا۔ بعض لوگوں کو رسول اللہﷺ کی طرف سے جاری کردہ قطعی اور ابدی حرمت کاحکم نہ سکا تھا لیکن خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر اور بعدازاں حضرت علیؓ نے اہتمام کیا کہ نکاح متعہ کی امت کا حکم سب لوگوں تک پہنچ جائے۔
پہلے سےرائج نکاح کی ممنوعہ صورتوں میں سے دوسری صورت نکاح شغار کی ہے جس میں ایک عورت کا حق مہر دوسری عورت کا نکاح ہوتا ہے۔ اسلام نے اس بات کا خاص طور پر اہتمام کیا ہے کہ نکاح کا معاہدہ سوچ سمجھ کر کیا جائے ، مرد نکاح سے پہلے ہونے والی بیوی کو دیکھ بھی لے، نکاح کے ذریعے سے ایک ساتھ اسی عورتیں یکجا نہ ہوں جن کا آپس میں خون کا قریبی رشتہ ہوتا کہ خون کا رشتہ نے رشتے کا بھینٹ نہ چڑھے اور پہلے سے قائم شدہ خاندانی تعلق داؤ پر نہ لگے۔ جب نکاح کا معاملہ شروع ہو جائے تو اس میں کسی طرح سے غلط مداخلت نہ ہو اور دلجمعی اور آزادی سے اس معاملے کے ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد یہ معاہدہ اچھی طرح سے طے ہو جائے۔ اسلام نے یہ متعین کر دیا ہے کہ خاندان کی طرف سے ولی ( باپ، بھائی وغیرہ) اور نکاح کرنے والے نوجوانوں سب کی دلی رضا مندی اس میں شامل ہوتا کہ یہ معاہدہ نہ صرف ہمیشہ قائم رہے، کھینچا تانی سے محفوظ رہے بلکہ اسے دونوں طرف سے پورے خاندانوں کی حمایت حاصل رہے۔ نکاح اور شادی کے معاملات میں مختلف معاشروں میں جو توہمات موجود ہوتے ہیں۔
اسلام نے ان کی بھی تردید کی ہے۔ اس بات کو بھی ناپسندیدہ قرار دیا کہ شادی صرف امیر اور اعلی طبقے میں کرنے کی کوشش کی جائے ۔ رسول اللہﷺ نے اپنی کنیز کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کو نیکی کا بہت بڑا عمل قرار دیا۔ اب کنیزیں میں موجودنہیں لیکن محروم طبقات کی دیندار خواتین سے شادی کے ذریعے، آپ ﷺ کی اس تر غیب پرعمل کی صورت موجود ہے۔ ایسی شادی اگر الله کی رضا کے لیے کی جائے تو یقینا خاندان اور آیندہ نسلوں کے لیے حددرجہ باعث برکت ثابت ہوتی ہے۔ اس کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ امام مسلم نے اس کتاب میں خود رسالت ماب ﷺکے نکاحوں اور شادیوں کے خوبصورت نمونوں کے حوالے سے تفصیلی روایتیں پیش کی ہیں۔ ان کے ضمن میں خاندانی رویوں بیوی کا احترام و اکرام ، شادی کی خوشی میں سب کی شرکت کے لیے ولیمے کے اہتمام کی انتہائی خوبصورت تفصیلات سامنے آتی ہیں۔ اس بات کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ شادی کی خوشی میں و لیمے میں ) بلائے جانے پر ہر صورت شرکت کی جائے اور ولیمہ کرنے والوں کو بطور خاص کہا گیا ہے کہ وہ ولیمے کو امراء کا مجمع نہ بنائیں ، تمام حلقوں کے لوگوں خصوصا فقراء کو بڑے اکرام سے اس میں شرکت کی دعوت دیں۔
ساری کوششوں کے باوجود نکاح کے معاہدے میں کوئی مسئلہ بھی پیدا ہوسکتا ہے اور طلاق کی نوبت بھی آسکتی ہے، اس لیے امام مسلم نے ضمنا اس کے ضروری پہلووں کی وضاحت کے لیے احادیث مبارکہ بیان کی ہیں۔ آخر میں وہ احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں میاں بیوی کے تعلق میں باہمی رشتوں کے تحفظ اور نئی نسل کی فلاح کے بارے میں ہدایات ہیں ۔ ہر معاملے میں ان باتوں کی وضاحت سے نشاندہی کر دی گئی جن سے احتراز ضروری ہے۔
ابن جریج نے ہمیں خبر دی، کہا: مجھے ابوزبیر نے بتایا کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علبہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام صاحب مختلف اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
شِغَار: کا لغوی معنی اٹھانا ہے، کہتے ہیں۔ شَغَرَ الْكَلْبُ: کتے نے پیشاب کرنے کے لیے ٹانگ اٹھائی، گو یا نکاح شغار کا معنی ہوا، تم میری بیٹی سے نکاح اس صورت میں کر سکتے ہو، جب تم مجھے اپنی بیٹی کا نکاح دو، اس کے بغیر تم میری بیٹی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے، ہمارے عرف میں اس کو وٹہ سٹہ کا نکاح کہا جاتا ہے۔
فوائد ومسائل
وٹہ سٹہ کا نکاح بالاتفاق ممنوع ہے۔ لیکن اس میں اختلاف ہے یہ نکاح ہو جانے کی صورت میں باطل ہو گا یا نہیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک باطل ہو گا، اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر تعلقات قائم نہیں ہوئے تو باطل اور اگر تعلقات قائم ہو چکے ہیں تو باطل نہیں ہے، صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے اگر اس کے ناجائز ہونے کا علم ہے تو پھر تو یہ باطل ہو گا اگرنکاح کے بعد پتہ چلا تو پھر حالات وظروف کا لحاظ رکھا جائے گا، اگر نکاح ختم کرنے سے خرابی اور فساد و زیادہ پیدا ہوتا ہو تو اس شرط کو کالعدم قراردے کر نکاح کو قائم رکھا جائے، شرط کے کالعدم ہونے کا معنی یہ ہے اگر ایک سے کسی وجہ سے نباہ نہیں ہوا تو اس کے مقابلہ میں بلا وجہ طلاق نہ دی جائے یا ایک خاوند نے کسی سبب اور وجہ کی بنا پر بیوی کی سرزنش و توبیخ کی ہے، تو دوسری پر بلا وجہ غصہ نہ نکالا جائے یا وہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں اپنے اپنے میکے نہ بیٹھ رہیں لیکن احناف کے نزدیک چونکہ شغار کی ممانعت کا سبب بلا مہر نکاح کرنا اور فرج کو مہر قرار دینا ہے، اس لیے اگر مہر مثل مقرر کر دیا جائے تو نکاح صحیح ہو جائے گا، حالانکہ وٹہ سٹہ کی حرمت کا سبب وہ بگاڑ اور فساد ہے جو اس کے نتیجہ میں رونما ہوتا ہے اور ہمارے معاشرہ میں اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ مہر کے مقرر کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin'Abdullah (RA) reported that Allah's Messenger (ﷺ) prohibited Shighar.