باب: نکاح میں ثیبہ (جس کی پہلے بھی شادی ہوئی تھی) سے اس کے بولنے اور باکرہ سے اس کی خاموشی (عدمِ انکار) کے ذریعے سے اجازت لینا
)
Muslim:
The Book of Marriage
(Chapter: Seeking permission of a previously-married woman in words, and of a virgin by silence)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1419.
ہشام نے یحییٰ بن ابی کثیر سے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابوسلمہ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علبہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت کا خاوند نہ رہا ہو اس کا نکاح (اس وقت تک) نہ کیا جائے حتیٰ کہ اس سے پوچھ لیا جائے اور کنواری کا نکاح نہ کیا جائے حتیٰ کہ اس سے اجازت لی جائے۔‘‘ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علبہ وسلم! اس کی اجازت کیسے ہو گی؟ آپ صلی اللہ علبہ وسلم نے فرمایا: ’’(ایسے) کہ وہ خاموش رہے (انکار نہ کرے)۔‘‘
تشریح:
فوائدومسائل
(آیّم) سے مراد ایسی عورت ہے جس کا خاوند نہ ہو ، یعنی فوت ہو گیا ہو یا طلاق ہو گئی ہو ۔ بعض اوقات اس سے مطلقاً غیر شادی شدہ عورت لی جاتی ہے جس میں کنواری بھی شامل ہو لیکن عموماً بیوہ یا مطلقہ کو ہی (ایّم) کہا جاتا ہے۔ اس حدیث میں بھی (آیّم) (بِکر) یعنی کنواری کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے۔ مراد بیوہ یا مطلقہ عورت ہے۔
ازدواج اور گھر بسانا انسان کی فطری ضرورت ہے۔ انسانی نسل کے آگے بڑھنے کا ذر یعہ بھی میں ہے۔ یہ معاملہ مرد و عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت اور اس کے عطا کردہ فطری اصولوں کی روشنی میں ملک باہمی رضامندی
سے طے ہونا چاہیے۔ اور فریقین کو طے شدہ معاہدے کی پابندی کا عہد اللہ کے نام پر کرنا چاہیے۔ ایسے مکمل معاہدے کے بغیر عورت اور مرد کا اکٹھا ہونا، بظاہر جتنا بھی آسان لگے معاشرے اورنسل کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ جن معاشروں نے اس طرح کی زندگی کی اجازت دی ہے، وہاں مائیں اور ان کے بچے شدید مصائب میں گرفتار اور تباہی کا شکار ہیں۔
کتاب النکاح میں امام مسلم نے سب سے پہلے وہ احادیث بیان کیں جن میں نکاح کی تلقین ہے۔ اس تلقین میں یہ بات بطور خاص ملحوظ رکھی گئی ہے کہ شادی کے معاملے میں مکمل باہمی رضامندی ہو لیکن مالی طور پر یا کسی اور طرح سے شادی کو مشکل نہ بنایا جائے ۔ مرد، عورت اور بچوں سمیت تمام فریقوں کے حقوق تبھی محفوظ رہ سکتے ہیں جب یہ معاہدہ مستقل ہو، ہمیشہ نبھانے کی نیت سے کیا جائے۔ تھوڑے سے عرصے کے لیے کیا گیا معاہدہ ( نکاح متعہ جو قدیم زمانے سے پورے معاشرے میں رائج تھا) اسلام نے تدریج سے کام لیتے ہوئے قطعی طور پر حرام قرار دیا۔ بعض لوگوں کو رسول اللہﷺ کی طرف سے جاری کردہ قطعی اور ابدی حرمت کاحکم نہ سکا تھا لیکن خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر اور بعدازاں حضرت علیؓ نے اہتمام کیا کہ نکاح متعہ کی امت کا حکم سب لوگوں تک پہنچ جائے۔
پہلے سےرائج نکاح کی ممنوعہ صورتوں میں سے دوسری صورت نکاح شغار کی ہے جس میں ایک عورت کا حق مہر دوسری عورت کا نکاح ہوتا ہے۔ اسلام نے اس بات کا خاص طور پر اہتمام کیا ہے کہ نکاح کا معاہدہ سوچ سمجھ کر کیا جائے ، مرد نکاح سے پہلے ہونے والی بیوی کو دیکھ بھی لے، نکاح کے ذریعے سے ایک ساتھ اسی عورتیں یکجا نہ ہوں جن کا آپس میں خون کا قریبی رشتہ ہوتا کہ خون کا رشتہ نے رشتے کا بھینٹ نہ چڑھے اور پہلے سے قائم شدہ خاندانی تعلق داؤ پر نہ لگے۔ جب نکاح کا معاملہ شروع ہو جائے تو اس میں کسی طرح سے غلط مداخلت نہ ہو اور دلجمعی اور آزادی سے اس معاملے کے ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد یہ معاہدہ اچھی طرح سے طے ہو جائے۔ اسلام نے یہ متعین کر دیا ہے کہ خاندان کی طرف سے ولی ( باپ، بھائی وغیرہ) اور نکاح کرنے والے نوجوانوں سب کی دلی رضا مندی اس میں شامل ہوتا کہ یہ معاہدہ نہ صرف ہمیشہ قائم رہے، کھینچا تانی سے محفوظ رہے بلکہ اسے دونوں طرف سے پورے خاندانوں کی حمایت حاصل رہے۔ نکاح اور شادی کے معاملات میں مختلف معاشروں میں جو توہمات موجود ہوتے ہیں۔
اسلام نے ان کی بھی تردید کی ہے۔ اس بات کو بھی ناپسندیدہ قرار دیا کہ شادی صرف امیر اور اعلی طبقے میں کرنے کی کوشش کی جائے ۔ رسول اللہﷺ نے اپنی کنیز کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کو نیکی کا بہت بڑا عمل قرار دیا۔ اب کنیزیں میں موجودنہیں لیکن محروم طبقات کی دیندار خواتین سے شادی کے ذریعے، آپ ﷺ کی اس تر غیب پرعمل کی صورت موجود ہے۔ ایسی شادی اگر الله کی رضا کے لیے کی جائے تو یقینا خاندان اور آیندہ نسلوں کے لیے حددرجہ باعث برکت ثابت ہوتی ہے۔ اس کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ امام مسلم نے اس کتاب میں خود رسالت ماب ﷺکے نکاحوں اور شادیوں کے خوبصورت نمونوں کے حوالے سے تفصیلی روایتیں پیش کی ہیں۔ ان کے ضمن میں خاندانی رویوں بیوی کا احترام و اکرام ، شادی کی خوشی میں سب کی شرکت کے لیے ولیمے کے اہتمام کی انتہائی خوبصورت تفصیلات سامنے آتی ہیں۔ اس بات کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ شادی کی خوشی میں و لیمے میں ) بلائے جانے پر ہر صورت شرکت کی جائے اور ولیمہ کرنے والوں کو بطور خاص کہا گیا ہے کہ وہ ولیمے کو امراء کا مجمع نہ بنائیں ، تمام حلقوں کے لوگوں خصوصا فقراء کو بڑے اکرام سے اس میں شرکت کی دعوت دیں۔
ساری کوششوں کے باوجود نکاح کے معاہدے میں کوئی مسئلہ بھی پیدا ہوسکتا ہے اور طلاق کی نوبت بھی آسکتی ہے، اس لیے امام مسلم نے ضمنا اس کے ضروری پہلووں کی وضاحت کے لیے احادیث مبارکہ بیان کی ہیں۔ آخر میں وہ احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں میاں بیوی کے تعلق میں باہمی رشتوں کے تحفظ اور نئی نسل کی فلاح کے بارے میں ہدایات ہیں ۔ ہر معاملے میں ان باتوں کی وضاحت سے نشاندہی کر دی گئی جن سے احتراز ضروری ہے۔
ہشام نے یحییٰ بن ابی کثیر سے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابوسلمہ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علبہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت کا خاوند نہ رہا ہو اس کا نکاح (اس وقت تک) نہ کیا جائے حتیٰ کہ اس سے پوچھ لیا جائے اور کنواری کا نکاح نہ کیا جائے حتیٰ کہ اس سے اجازت لی جائے۔‘‘ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علبہ وسلم! اس کی اجازت کیسے ہو گی؟ آپ صلی اللہ علبہ وسلم نے فرمایا: ’’(ایسے) کہ وہ خاموش رہے (انکار نہ کرے)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل
(آیّم) سے مراد ایسی عورت ہے جس کا خاوند نہ ہو ، یعنی فوت ہو گیا ہو یا طلاق ہو گئی ہو ۔ بعض اوقات اس سے مطلقاً غیر شادی شدہ عورت لی جاتی ہے جس میں کنواری بھی شامل ہو لیکن عموماً بیوہ یا مطلقہ کو ہی (ایّم) کہا جاتا ہے۔ اس حدیث میں بھی (آیّم) (بِکر) یعنی کنواری کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے۔ مراد بیوہ یا مطلقہ عورت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شوہر دیدہ کا نکاح اس کے مشورہ کے بغیر نہ کیا جائے، اور کنواری کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے دریافت کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علبہ وسلم! اس کی اجازت کی کیفیت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علبہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کی خاموشی، (سکوت)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
(اَيْم) کا اصل معنی ہے، بے شوہر والی عورت جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ﴾(اپنی بے شوہر والی عورتوں کی شادی کرو) لیکن اس باب میں مذکورہ احادیث میں اس سے مراد ایسی عورت ہے جو شادی شدہ ہو اور شوہر کے ساتھ رہنے کے بعد کسی سبب سے خواہ وہ شوہر کا انتقال ہو یا طلاق و خلع بے شوہر ہو گئی ہو، بعض روایات میں اس کو (اَلثَّيِِّبْ) کا نام دیا گیا ہے،ایسی عورت کے بارے میں ہدایت دی گئی ہے کہ اس کی رائے اور مرضی معلوم کیے بغیر اس کی شادی نہ کی جائے اور یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی رائے یا رضا مندی کا اظہار زبان سے یا واضح اشارے سے کرے، اور کنواری لڑکی کے بارے میں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے، لیکن دو شیزہ لڑکیوں کو جبکہ وہ شرم و حیاء سے متصف ہوں آزاد اور کھلی نہ ہوں زبان یا ا شارہ سے اجازت دینا مشکل ہوتا ہے اس لیے ان کی اجازت کے لیے ان کی خاموشی یا رضا مندی کا کوئی قرینہ یا اشارہ ہی کافی ہے، اور یہ بات واضح ہے، وہی لڑکی زبان سے یا سکوت سے رضا مندی کا اظہار کر سکتی ہے جو سن شعور و تمیز کو پہنچ چکی ہو، اور سوچنے ، سمجھنےکی صلاحیت رکھتی ہو شادی کے مقصد اور مفہوم کو سمجھتی ہو لیکن اگر کوئی لڑکی ابھی نکاح و شادی کے بارے میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہے اور کسی مجبوری یا مصلحت کے تقاضہ کے تحت اس کی شادی کرنی ہے کوئی بہت اچھا اور مناسب رشتہ ملتا ہے اور ولی خیر خواہ اور ذمہ دارہے کسی خود غرض یا دنیوی مفاد کا حریص و لالچی نہیں ہے بلکہ بچی کی بہتری اور بھلائی کے جذبہ کے تحت اس کی شادی کرنا چاہتا ہے تو اپنی خیر خواہانہ صوابدید کے مطابق خود فیصلہ کر سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as having said: A woman without a husband (or divorced or a widow) must not be married until she is consulted, and a virgin must not be married until her permission is sought. They asked the Prophet (ﷺ) of Allah (ﷺ) : How her (virgin's) consent can be solicited? He (the Holy Prophet) said: That she keeps silence.