قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ الصَّدَاقِ، وَجَوَازِ كَوْنِهِ تَعْلِيمَ قُرْآنٍ، وَخَاتَمَ حَدِيدٍ، وَغَيْرَ ذَلِكَ مِنْ قَلِيلٍ وَكَثِيرٍ، وَاسْتِحْبَابِ كَوْنِهِ خَمْسَمِائَةِ دِرْهَمٍ لِمَنْ لَا يُجْحِفُ بِهِ)

حکم : صحیح

ترجمة الباب:

1425 .   حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيَّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، ح وَحَدَّثَنَاهُ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، جِئْتُ أَهَبُ لَكَ نَفْسِي، فَنَظَرَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَعَّدَ النَّظَرَ فِيهَا وَصَوَّبَهُ، ثُمَّ طَأْطَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ، فَلَمَّا رَأَتِ الْمَرْأَةُ أَنَّهُ لَمْ يَقْضِ فِيهَا شَيْئًا جَلَسَتْ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ فَزَوِّجْنِيهَا، فَقَالَ: «فَهَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ؟» فَقَالَ: لَا، وَاللهِ يَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ: «اذْهَبْ إِلَى أَهْلِكَ فَانْظُرْ هَلْ تَجِدُ شَيْئًا؟» فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: لَا، وَاللهِ، مَا وَجَدْتُ شَيْئًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْظُرْ وَلَوْ خَاتِمًا مِنْ حَدِيدٍ»، فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: لَا، وَاللهِ، يَا رَسُولَ اللهِ، وَلَا خَاتِمًا مِنْ حَدِيدٍ، وَلَكِنْ هَذَا إِزَارِي - قَالَ سَهْلٌ: مَا لَهُ رِدَاءٌ - فَلَهَا نِصْفُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَصْنَعُ بِإِزَارِكَ؟ إِنْ لَبِسْتَهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهَا مِنْهُ شَيْءٌ، وَإِنْ لَبِسَتْهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْكَ مِنْهُ شَيْءٌ»، فَجَلَسَ الرَّجُلُ، حَتَّى إِذَا طَالَ مَجْلِسُهُ قَامَ، فَرَآهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوَلِّيًا، فَأَمَرَ بِهِ فَدُعِيَ، فَلَمَّا جَاءَ قَالَ: «مَاذَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ؟» قَالَ: مَعِي سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا - عَدَّدَهَا - فَقَالَ: «تَقْرَؤُهُنَّ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِكَ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «اذْهَبْ فَقَدْ مُلِّكْتَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ»، هَذَا حَدِيثُ ابْنِ أَبِي حَازِمٍ، وَحَدِيثُ يَعْقُوبَ يُقَارِبُهُ فِي اللَّفْظِ.

صحیح مسلم:

کتاب: نکاح کے احکام و مسائل

 

تمہید کتاب  (

باب:مہر قرآن کی تعلیم، لوہے کی انگوٹھی اور اس کے علاوہ (کسی بھی چیزکی) تھوڑی یا زیادہ مقدار ہو سکتی ہے، اور جو شخص اس کی وجہ سے مشقت میں نہ پڑے اس کی طرف سے پانچ سو درہم (مہر) ہونا مستحب ہے

)
 

مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)

1425.   یعقوب بن عبدالرحمٰن القاری اور عبدالعزیز بن ابی حازم نے ابوحازم سے، انہوں نے حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنی ذات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف نظر کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نظر نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے تک لے گئے۔ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک جھکا لیا۔ جب عورت نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (کے ساتھ شادی) کی ضرورت نہیں تو اس کی شادی میرے ساتھ کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا تمہارے پاس (حق مہر میں دینے کے لیے) کوئی چیز ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: اللہ کی قسم! اللہ کے رسول! (کچھ) نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ، دیکھو تمہیں کچھ ملتا ہے؟‘‘ وہ گیا پھر واپس آیا اور عرض کی: نہیں، اللہ کی قسم! مجھے کچھ نہیں ملا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دیکھو! چاہے لوہے کی انگوٹھی ہو۔‘‘ وہ گیا پھر واپس آیا، اور عرض کی، نہیں، اللہ کی قسم! اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ہے، البتہ میری یہ تہبند ہے۔ سہل نے کہا: اس کے پاس (کندھے کی) چادر بھی نہیں تھی۔ اس میں سے آدھی (بطور مہر) اِس کے لیے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ تمہارے تہبند کا کیا کرے گی، اگر تم اسے پہنو گے تو اس (کے جسم) پر اس میں سے کچھ نہیں ہو گا اور اگر وہ پہنے گی تو تم پر اس میں سے کچھ نہیں ہو گا۔‘‘ اس پر وہ آدمی بیٹھ گیا۔ اسے بیٹھے ہوئے لمبا وقت ہو گیا تو وہ کھڑا ہو گیا (اور چل دیا۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیٹھ پھیر کر جاتے ہوئے دیکھ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر بلا لیا گیا، جب وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے پاس قرآن کتنا ہے؟‘‘ (تمہیں کتنا قرآن یاد ہے؟) اس نے عرض کی: میرے پاس فلاں سورت اور فلاں سورت ہے۔ اس نے وہ سورتیں شمار کیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’تم انہیں زبانی پڑھتے ہو؟‘‘ اس نے عرض کی، جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ، تمہیں جتنا قرآن یاد ہے اس کے عوض (نکاح کے لیے) تمہیں اس کا مالک (خاوند) بنا دیا گیا ہے۔‘‘ یہ ابن ابوحازم کی حدیث ہے، یعقوب کی حدیث بھی الفاظ میں اسی کے قریب ہے۔