باب: قید کی جانے والی حاملہ عورت سے مباشرت کی حرمت
)
Muslim:
The Book of Marriage
(Chapter: The prohibition of intercourse with a pregnant captive woman)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1442.
خلف بن ہشام اور یحییٰ بن یحییٰ نے ۔۔ الفاظ یحییٰ کے ہیں ۔۔ مالک بن انس سے حدیث بیان کی، انہوں نے محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اور انہوں نے جُدامہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ’’میں نے ارادہ کیا تھا کہ غِیلہ (دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ مباشرت کرنے) سے منع کر دوں، پھر مجھے یاد آ یا کہ روم اور فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں اور یہ ان کے بچوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔‘‘ جہاں تک خلف کا تعلق ہے تو انہوں نے کہا: جذامہ اسدیہ سے روایت ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: صحیح وہ ہے جو یحییٰ نے کہا (کہ یہ لفظ) بغیر نقطے والی دال کے ساتھ (جُدَامَہ) ہے۔
ازدواج اور گھر بسانا انسان کی فطری ضرورت ہے۔ انسانی نسل کے آگے بڑھنے کا ذر یعہ بھی میں ہے۔ یہ معاملہ مرد و عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت اور اس کے عطا کردہ فطری اصولوں کی روشنی میں ملک باہمی رضامندی
سے طے ہونا چاہیے۔ اور فریقین کو طے شدہ معاہدے کی پابندی کا عہد اللہ کے نام پر کرنا چاہیے۔ ایسے مکمل معاہدے کے بغیر عورت اور مرد کا اکٹھا ہونا، بظاہر جتنا بھی آسان لگے معاشرے اورنسل کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ جن معاشروں نے اس طرح کی زندگی کی اجازت دی ہے، وہاں مائیں اور ان کے بچے شدید مصائب میں گرفتار اور تباہی کا شکار ہیں۔
کتاب النکاح میں امام مسلم نے سب سے پہلے وہ احادیث بیان کیں جن میں نکاح کی تلقین ہے۔ اس تلقین میں یہ بات بطور خاص ملحوظ رکھی گئی ہے کہ شادی کے معاملے میں مکمل باہمی رضامندی ہو لیکن مالی طور پر یا کسی اور طرح سے شادی کو مشکل نہ بنایا جائے ۔ مرد، عورت اور بچوں سمیت تمام فریقوں کے حقوق تبھی محفوظ رہ سکتے ہیں جب یہ معاہدہ مستقل ہو، ہمیشہ نبھانے کی نیت سے کیا جائے۔ تھوڑے سے عرصے کے لیے کیا گیا معاہدہ ( نکاح متعہ جو قدیم زمانے سے پورے معاشرے میں رائج تھا) اسلام نے تدریج سے کام لیتے ہوئے قطعی طور پر حرام قرار دیا۔ بعض لوگوں کو رسول اللہﷺ کی طرف سے جاری کردہ قطعی اور ابدی حرمت کاحکم نہ سکا تھا لیکن خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر اور بعدازاں حضرت علیؓ نے اہتمام کیا کہ نکاح متعہ کی امت کا حکم سب لوگوں تک پہنچ جائے۔
پہلے سےرائج نکاح کی ممنوعہ صورتوں میں سے دوسری صورت نکاح شغار کی ہے جس میں ایک عورت کا حق مہر دوسری عورت کا نکاح ہوتا ہے۔ اسلام نے اس بات کا خاص طور پر اہتمام کیا ہے کہ نکاح کا معاہدہ سوچ سمجھ کر کیا جائے ، مرد نکاح سے پہلے ہونے والی بیوی کو دیکھ بھی لے، نکاح کے ذریعے سے ایک ساتھ اسی عورتیں یکجا نہ ہوں جن کا آپس میں خون کا قریبی رشتہ ہوتا کہ خون کا رشتہ نے رشتے کا بھینٹ نہ چڑھے اور پہلے سے قائم شدہ خاندانی تعلق داؤ پر نہ لگے۔ جب نکاح کا معاملہ شروع ہو جائے تو اس میں کسی طرح سے غلط مداخلت نہ ہو اور دلجمعی اور آزادی سے اس معاملے کے ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد یہ معاہدہ اچھی طرح سے طے ہو جائے۔ اسلام نے یہ متعین کر دیا ہے کہ خاندان کی طرف سے ولی ( باپ، بھائی وغیرہ) اور نکاح کرنے والے نوجوانوں سب کی دلی رضا مندی اس میں شامل ہوتا کہ یہ معاہدہ نہ صرف ہمیشہ قائم رہے، کھینچا تانی سے محفوظ رہے بلکہ اسے دونوں طرف سے پورے خاندانوں کی حمایت حاصل رہے۔ نکاح اور شادی کے معاملات میں مختلف معاشروں میں جو توہمات موجود ہوتے ہیں۔
اسلام نے ان کی بھی تردید کی ہے۔ اس بات کو بھی ناپسندیدہ قرار دیا کہ شادی صرف امیر اور اعلی طبقے میں کرنے کی کوشش کی جائے ۔ رسول اللہﷺ نے اپنی کنیز کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کو نیکی کا بہت بڑا عمل قرار دیا۔ اب کنیزیں میں موجودنہیں لیکن محروم طبقات کی دیندار خواتین سے شادی کے ذریعے، آپ ﷺ کی اس تر غیب پرعمل کی صورت موجود ہے۔ ایسی شادی اگر الله کی رضا کے لیے کی جائے تو یقینا خاندان اور آیندہ نسلوں کے لیے حددرجہ باعث برکت ثابت ہوتی ہے۔ اس کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ امام مسلم نے اس کتاب میں خود رسالت ماب ﷺکے نکاحوں اور شادیوں کے خوبصورت نمونوں کے حوالے سے تفصیلی روایتیں پیش کی ہیں۔ ان کے ضمن میں خاندانی رویوں بیوی کا احترام و اکرام ، شادی کی خوشی میں سب کی شرکت کے لیے ولیمے کے اہتمام کی انتہائی خوبصورت تفصیلات سامنے آتی ہیں۔ اس بات کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ شادی کی خوشی میں و لیمے میں ) بلائے جانے پر ہر صورت شرکت کی جائے اور ولیمہ کرنے والوں کو بطور خاص کہا گیا ہے کہ وہ ولیمے کو امراء کا مجمع نہ بنائیں ، تمام حلقوں کے لوگوں خصوصا فقراء کو بڑے اکرام سے اس میں شرکت کی دعوت دیں۔
ساری کوششوں کے باوجود نکاح کے معاہدے میں کوئی مسئلہ بھی پیدا ہوسکتا ہے اور طلاق کی نوبت بھی آسکتی ہے، اس لیے امام مسلم نے ضمنا اس کے ضروری پہلووں کی وضاحت کے لیے احادیث مبارکہ بیان کی ہیں۔ آخر میں وہ احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں میاں بیوی کے تعلق میں باہمی رشتوں کے تحفظ اور نئی نسل کی فلاح کے بارے میں ہدایات ہیں ۔ ہر معاملے میں ان باتوں کی وضاحت سے نشاندہی کر دی گئی جن سے احتراز ضروری ہے۔
خلف بن ہشام اور یحییٰ بن یحییٰ نے ۔۔ الفاظ یحییٰ کے ہیں ۔۔ مالک بن انس سے حدیث بیان کی، انہوں نے محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اور انہوں نے جُدامہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ’’میں نے ارادہ کیا تھا کہ غِیلہ (دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ مباشرت کرنے) سے منع کر دوں، پھر مجھے یاد آ یا کہ روم اور فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں اور یہ ان کے بچوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔‘‘ جہاں تک خلف کا تعلق ہے تو انہوں نے کہا: جذامہ اسدیہ سے روایت ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: صحیح وہ ہے جو یحییٰ نے کہا (کہ یہ لفظ) بغیر نقطے والی دال کے ساتھ (جُدَامَہ) ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جدامہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں دودھ پلانے والی عورت سے مباشرت کرنے سے منع کر دوں حتی کہ مجھے یاد آ یا کہ رومی اور فارسی دودھ پلانے والی عورت سے مجامعت کرتے ہیں اور اس سے ان کی اولاد کو نقصان نہیں پہنچتا۔‘‘ امام مسلم فرماتے ہیں: میرے استاد خلف نے جُذَامَہ اَسَدِیَہ، ذال مَنقُوطَہ کے ساتھ کہا لیکن صحیح بات دوسرے استاد یحییٰ کی ہے کہ یہ دال بلا نقطہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
غِيلَه اور غَيلَه: زیراورزبر کے ساتھ۔ دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ مباشرت کرنے کو کہتے ہیں اور ابن السکیت کے نزدیک حاملہ عورت کے دودھ پلانے کو غیلہ کہتے ہیں۔
فوائد ومسائل
حکماء کا خیال ہے حاملہ عورت کے دودھ میں بیماری پیدا ہوجاتی ہے، اور یہ دودھ پینے والا بچہ لاغر اور کمزور ہو جاتا ہے، اس لیے عرب اس دودھ سے احتراز کرتے تھے۔ لیکن دودھ میں بیماری اورتبدیلی کا پیدا ہونا قطعی اور یقینی نہیں ہے، بعض دفعہ یہ نقصان کا باعث بنتا ہے خاص کر جبکہ بچہ چھوٹا ہو۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فارسیوں اور رومیوں کے بارے میں یہ معلوم کرلیا۔ انہیں غیلہ سے نقصان نہیں پہنچتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کے بارے میں بھی یہی فیصلہ کیا کہ انہیں اس کام سے منع نہ کیا جائے۔ اگر کوئی احتراز کر لے، تو یہ بہتر ہے۔ (حجۃاللہ ج2 ص135)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Judaima daughter of Wahb al-Asadiyya (Allah be pleased with her) reported that she heard Allah's Messenger (ﷺ) assaying: I intended to prohibit cohabitation with a suckling woman until I considered that the Romans and the Persians do it without any injury being caused to their children thereby. (Imam Muslim said: Khalaf reported it from Judamat al-'Asadiyya, but the correct wording is what has been stated by Yahya.)