Muslim:
The Book of Suckling
(Chapter: The prohibition that results from breastfeeding is related to the issue of the male)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1445.
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ابن شہاب سے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انہوں نے ان (عروہ) کو خبر دی کہ پردے کے احکام نازل ہونے کے بعد ابوقُعیس کے بھائی افلح آئے، وہ اندر آنے کی اجازت چاہتے تھے، اور وہ ان کے رضاعی چچا (لگتے) تھے۔ انہوں نے کہا: میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو جو میں نے کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ انہیں اپنے سامنے آنے کی اجازت دوں۔
رضاعت دودھ پلانے کو کہتے ہیں حقیقی ماں کے علاوہ بھی بچہ جس عورت کا دودھ پیتا ہے وہ اس کا جز بدن بنتا ہے اس سے بچے کا گوشت پوست بنتا ہے،اس کی ہڈیاں نشونما پاتی ہیں وہ رضاعت کے حوالے سے بچے کی ماں بن جاتی ہے اس لیے اس کے ذریعے سے دودھ پلانے والی عورت کا بچے کے ساتھ ایسا رشتہ قائم ہوتا ہے جس کی بنا پر نکاح کا رشتہ حرام ہو جاتا ہے۔رضاعت کی بنا پر یہ حرمت دودھ پلانے والی عورت ، اس کی اولاد،اس کے بہن بھائیوں اور ان کی اولادوں تک اسی طرح پہنچتی ہے جس طرح ولادت کی بنا پر پہنچتی ہے عورت کا دودھ تب اترتا ہے جب بچہ ہو حمل اور بچے کی پیدائش کے ساتھ ، دودھ اترنے کے عمل میں خاوند شریک ہوتا ہے اس لیے دودھ پینے والے بچے کی رضاعت کا رشتہ ،دودھ پلانے والی ماں کے خاوند اور آگے اس کے خونی رشتوں تک چلا جاتا ہے وہ بچے یا بچی کا رضاعی باپ ہوتا ہے ۔ اس کا بھائی چچا ہوتا ہے اس کا والد دادا ہوتا ہے اس کی والدہ دادی ہوتی ہے اس کی بہن پھوپھی ہوتی ہے علی ھٰذا القیاس ان تمام کی حرمت کا رشتہ اسی بچے کا قائم ہوتا ہے جس نے دودھ پیا یا براہِ راست اس کی اولاد کا رضاعت نکاح کی حرمت کا سبب بنتی ہے میراث قصاص،دیت کے سقوط اور گواہی رد ہونے کا سبب نہیں بنتی اس حصے میں امام مسلم نے رضاعت کے علاوہ نکاح، خاندان اور خواتین کی عادت کو حوالے سے کچھ دیگر مسائل بھی بیان کیے ہیں کتاب الرضاع حقیقت میں کتاب النکاح ہی کا ایک ذیلی حصہ ہے جس میں رضاعت کے رشتوں کے حوالے سے نکاح کے جواز اور عدم جواز اور عدم جواز کے مسائل بیان ہوئے ہیں اس کا آخری حصہ کتاب النکاح کا تتمہ ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ابن شہاب سے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انہوں نے ان (عروہ) کو خبر دی کہ پردے کے احکام نازل ہونے کے بعد ابوقُعیس کے بھائی افلح آئے، وہ اندر آنے کی اجازت چاہتے تھے، اور وہ ان کے رضاعی چچا (لگتے) تھے۔ انہوں نے کہا: میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو جو میں نے کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ انہیں اپنے سامنے آنے کی اجازت دوں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ ابو القعیس کا بھائی افلح آیا اور اس نے ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، وہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رضاعی چچا تھا اور پردے کے احکام نازل ہو چکے تھے، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کو اجازت دینے سے انکار کر دیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انہیں اپنے اس کام (عمل) کی خبر دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے انہیں اجازت دینے کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
ابوالقعیس کا بھائی افلح جس کو بعض روایات میں ابوالجعد کہا گیا ہے اور بعض میں ابن القعیس ایک آدمی ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رضاعی چچا ہے لیکن اس کو ابولقعیس قراردینا راوی کا وہم ہے۔ اور حدیث نمبر1۔ میں جس رضاعی چچا کو فوت شدہ قرار دیا گیا ہے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رضاعی بھائی تھا اور یہ افلح ان کے رضاعی باپ ابوالقعیس کا بھائی تھا، اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دونوں کا حکم الگ الگ سمجھا، اس لیے اس کو اندر آنے کی اجازت نہ دی، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حرمت رضاعت کا تعلق صرف مرضعہ (دودھ پلانے والی) سے نہیں ہے بلکہ اس کے خاوند کے اصول اورفروع سے بھی ہے۔ کیونکہ رضاعت میں خاوند کا بھی اثر اور عمل دخل ہے اور یہ مسئلہ اب سب کے درمیان اتفاقی ہے۔ اگرچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین، تابعین رحمۃ اللہ علیہم اور بعض فقہاء، خاوند کا دودھ میں دخل تسلیم نہیں کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha (Allah be pleased with her) reported that Aflah, the brother of Abu'l-Quais, who was her uncle by reason of fosterage, came, and asked her permission (to enter the house) after seclusion was instituted. I refused to admit him. When Allah's Messenger (ﷺ) came, I Informed him what I had done. He commanded me to grant him permission (as the brother of her foster-father was also her uncle).