Muslim:
The Book of Suckling
(Chapter: Breastfeeding is because of Hunger (meaning, during infancy))
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1455.
ابواحوص نے ہمیں اشعث سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے، اور انہوں نے مسروق سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے جبکہ میرے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزری، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصہ دیکھا، کہا: تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یہ رضاعت (کے رشتے سے) میرا بھائی ہے، کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(تم خواتین) اپنے رضاعی بھائیوں (کے معاملے) کو دیکھ لیا کرو (اچھی طرح غور کر لیا کرو) کیونکہ رضاعت بھوک ہی سے (معتبر) ہے۔‘‘
تشریح:
فوائدومسائل
یہی قاعدہ کلیہ ہے جس سے استثناء، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نقطۂ نظر کے مطابق، کسی اہم ضرورت کی بنا پر، ہر نوجوان کو حاصل ہو سکتا ہے جبکہ باقی امھات المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہنّ کے مطابق صرف اسی کو حاصل ہو سکتا ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت سے اجازت دی تھی۔
رضاعت دودھ پلانے کو کہتے ہیں حقیقی ماں کے علاوہ بھی بچہ جس عورت کا دودھ پیتا ہے وہ اس کا جز بدن بنتا ہے اس سے بچے کا گوشت پوست بنتا ہے،اس کی ہڈیاں نشونما پاتی ہیں وہ رضاعت کے حوالے سے بچے کی ماں بن جاتی ہے اس لیے اس کے ذریعے سے دودھ پلانے والی عورت کا بچے کے ساتھ ایسا رشتہ قائم ہوتا ہے جس کی بنا پر نکاح کا رشتہ حرام ہو جاتا ہے۔رضاعت کی بنا پر یہ حرمت دودھ پلانے والی عورت ، اس کی اولاد،اس کے بہن بھائیوں اور ان کی اولادوں تک اسی طرح پہنچتی ہے جس طرح ولادت کی بنا پر پہنچتی ہے عورت کا دودھ تب اترتا ہے جب بچہ ہو حمل اور بچے کی پیدائش کے ساتھ ، دودھ اترنے کے عمل میں خاوند شریک ہوتا ہے اس لیے دودھ پینے والے بچے کی رضاعت کا رشتہ ،دودھ پلانے والی ماں کے خاوند اور آگے اس کے خونی رشتوں تک چلا جاتا ہے وہ بچے یا بچی کا رضاعی باپ ہوتا ہے ۔ اس کا بھائی چچا ہوتا ہے اس کا والد دادا ہوتا ہے اس کی والدہ دادی ہوتی ہے اس کی بہن پھوپھی ہوتی ہے علی ھٰذا القیاس ان تمام کی حرمت کا رشتہ اسی بچے کا قائم ہوتا ہے جس نے دودھ پیا یا براہِ راست اس کی اولاد کا رضاعت نکاح کی حرمت کا سبب بنتی ہے میراث قصاص،دیت کے سقوط اور گواہی رد ہونے کا سبب نہیں بنتی اس حصے میں امام مسلم نے رضاعت کے علاوہ نکاح، خاندان اور خواتین کی عادت کو حوالے سے کچھ دیگر مسائل بھی بیان کیے ہیں کتاب الرضاع حقیقت میں کتاب النکاح ہی کا ایک ذیلی حصہ ہے جس میں رضاعت کے رشتوں کے حوالے سے نکاح کے جواز اور عدم جواز اور عدم جواز کے مسائل بیان ہوئے ہیں اس کا آخری حصہ کتاب النکاح کا تتمہ ہے۔
ابواحوص نے ہمیں اشعث سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے، اور انہوں نے مسروق سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے جبکہ میرے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزری، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصہ دیکھا، کہا: تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یہ رضاعت (کے رشتے سے) میرا بھائی ہے، کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(تم خواتین) اپنے رضاعی بھائیوں (کے معاملے) کو دیکھ لیا کرو (اچھی طرح غور کر لیا کرو) کیونکہ رضاعت بھوک ہی سے (معتبر) ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل
یہی قاعدہ کلیہ ہے جس سے استثناء، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نقطۂ نظر کے مطابق، کسی اہم ضرورت کی بنا پر، ہر نوجوان کو حاصل ہو سکتا ہے جبکہ باقی امھات المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہنّ کے مطابق صرف اسی کو حاصل ہو سکتا ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت سے اجازت دی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس اس وقت تشریف لائے جبکہ ایک آدمی میرے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ تو یہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ناگوار گزری اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصہ کے آثار دیکھے۔ تو میں نے عرض کی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یہ میرا رضاعی بھائی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے رضاعی بھائیوں کے بارے میں غور و فکر کر لیا کرو، رضاعت وہی معتبر ہے جو بھوک کو ختم کرتی ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے جب دودھ پینے والا بچہ صرف دودھ کا خواہش مند ہو اور اس سے اس کی بھوک مٹتی ہو ایسی صورت میں اگر وہ عورت کا دودھ کسی طریقہ سے بھی پیٹ میں داخل ہونے دے گا تو وہ رضیع سمجھا جائے گا۔ اگر دودھ ایسے وقت میں بچہ کو دیا گیا ہے۔ جس سے اس کی بھوک نہیں ختم ہوتی اوروہ اس کی غذا نہیں بنتا، تو رضاعت ثابت نہیں ہوگی جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے:(لَا رِضَاعَ إِلَّا مَا شَدَّ الْعَظْمَ وَأَنْبَتَ اللَّحْمَ) رضاعت وہی معتبر ہے جو ہڈیوں کو مضبوط کرے اور گوشت کو نشوونما دے، اور یہ حقیقت ہے کہ عام طور پر دودھ یہ کام اسی صورت میں کرتا ہے جب کئی دفعہ پیا جائے محض ایک دو دفعہ پینے سے یہ بچے کی نشوونما اور تعمیر وتشکیل کا باعث نہیں بنتا۔اورانتہائی عجیب بات ہے کہ علامہ تقی : (اِنَّمَا الرَّضَاعُ مِنَ الْمَجَاعَةِ) کی توضیع وتشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں، کہ اس رضاعت سے حرمت ثابت ہو گی جو چھوٹی عمر میں ہو جب بچہ دودھ پی رہا ہو اور( يَسُدُّ الَّلَبَنُ جُوْعَتَهُ) دودھ اس کی بھوک کو ختم کرے کیونکہ اس کا معدہ کمزور ہوتا ہے۔ اس لیے دودھ ہی اس کے لیے کافی ہوتا ہے، اور اس سے اس کا گوشت نشوونما پاتا ہے جس سے وہ ایک طرح سے مرضعہ کا جزو بن جاتا ہے۔ (تکملہ ج 1۔ ص 58) لیکن جب اس سے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے پانچ رضعات کے معتبر ہونے پر استدلال کیا، تو اس کا جواب دیا کہ مِنْ سَبَبِیَّہ ہے اور معنی یہ ہے کہ وہ رضاع باعث تحریم ہے۔ (مَا كَانَ بِسَبَبِ الْجُوْعِ) جو بھوک کی وجہ سے ہو یہ معنی نہیں ہے اور وہ رضاع محرم ہے جو (مَا سَدَّ الْجُوْعَ) جوبھوک کا انسداد وخاتمہ کرے اور اس سے بچہ سیر ہو جائے (تکملہ ج1ص 65) اور آ گے لکھتے ہیں گوشت پوست کو نشوونما کی معرفت کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ بسا اوقات رضاع قلیل سے وہ نشوونما پایا جاتا ہے اور بسا اوقات کثیر سے بھی نشوونما نہیں پاتا۔ لہذا مطلق رضاع ہی محرم ہے۔ اگریہی صورت حال ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا:(لَا يُحَرِّمُ مِنْ الرِّضَاعَةِ إِلَّا مَا فَتَقَ الْأَمْعَاءَ) وہی رضاعت تحریم کا باعث ہے جو انتڑٖیوں کو کشادہ کردے پھر مطلق رضاعت ہی معتبر ہے پھر تو ابن حزم کاقول صحیح ہے مجاعہ کے عموم میں چھوٹے بڑے میں کوئی فرق نہیں ہے اس لیے رضاعت کبیر معتبرہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha (Allah be pleased with her) reported: Allah's Messenger (ﷺ) visited me when a man was sitting near me, and he seemed to disapprove of that. And I saw signs of anger on his face and I said: Messenger of Allah, he is my brother by forsterage, whereupon he said: Consider who your brothers are because of fosterage since fosterage is through hunger (i. e. in infancy).