Muslim:
The Book of Suckling
(Chapter: It is permissible for a wife to give her turn to a co-wife)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1464.
ابواسامہ نے ہمیں ہشام سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (عروہ) سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں ان عورتوں پر غیرت کرتی تھی جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بطور ہبہ پیش کرتی تھیں، میں کہتی: کیا کوئی عورت بھی خود کو ہبہ کر سکتی ہے؟ جب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا: (آپ ان عورتوں میں سے جسے چاہیں پیچھے کر دیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور جسے آپ نے الگ کر دیا تھا ان میں سے بھی جسے آپ کا دل چاہے لائیں۔) کہا: تو میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کو نہیں دیکھتی مگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش (کو پورا کرنے) میں جلدی کرتا ہے۔
تشریح:
فوائدومسائل
اس آیت کے بعد جو اگلی آیت نازل ہوئی ﴿لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ ...........﴾ (الاحزاب 52:33) (اس کے بعد آپ کے لئے مزید عورتیں حلال نہیں، نہ ہی یہ کہ آپ ان بیویوں کے بدلے میں دوسری کر لیں چاہے ان کا حسن و جمال آپ کو اچھا لگے ..........) (الاحزاب 52:33) اس میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کی جنہوں نے خلوصِ دل سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چن لیا تھا، دلی خواہش بہت اکرام اور اعزاز کے ساتھ پوری فر ما دی اور ان کے مرتبے کو مکمل تحفظ عطا کر دیا۔
رضاعت دودھ پلانے کو کہتے ہیں حقیقی ماں کے علاوہ بھی بچہ جس عورت کا دودھ پیتا ہے وہ اس کا جز بدن بنتا ہے اس سے بچے کا گوشت پوست بنتا ہے،اس کی ہڈیاں نشونما پاتی ہیں وہ رضاعت کے حوالے سے بچے کی ماں بن جاتی ہے اس لیے اس کے ذریعے سے دودھ پلانے والی عورت کا بچے کے ساتھ ایسا رشتہ قائم ہوتا ہے جس کی بنا پر نکاح کا رشتہ حرام ہو جاتا ہے۔رضاعت کی بنا پر یہ حرمت دودھ پلانے والی عورت ، اس کی اولاد،اس کے بہن بھائیوں اور ان کی اولادوں تک اسی طرح پہنچتی ہے جس طرح ولادت کی بنا پر پہنچتی ہے عورت کا دودھ تب اترتا ہے جب بچہ ہو حمل اور بچے کی پیدائش کے ساتھ ، دودھ اترنے کے عمل میں خاوند شریک ہوتا ہے اس لیے دودھ پینے والے بچے کی رضاعت کا رشتہ ،دودھ پلانے والی ماں کے خاوند اور آگے اس کے خونی رشتوں تک چلا جاتا ہے وہ بچے یا بچی کا رضاعی باپ ہوتا ہے ۔ اس کا بھائی چچا ہوتا ہے اس کا والد دادا ہوتا ہے اس کی والدہ دادی ہوتی ہے اس کی بہن پھوپھی ہوتی ہے علی ھٰذا القیاس ان تمام کی حرمت کا رشتہ اسی بچے کا قائم ہوتا ہے جس نے دودھ پیا یا براہِ راست اس کی اولاد کا رضاعت نکاح کی حرمت کا سبب بنتی ہے میراث قصاص،دیت کے سقوط اور گواہی رد ہونے کا سبب نہیں بنتی اس حصے میں امام مسلم نے رضاعت کے علاوہ نکاح، خاندان اور خواتین کی عادت کو حوالے سے کچھ دیگر مسائل بھی بیان کیے ہیں کتاب الرضاع حقیقت میں کتاب النکاح ہی کا ایک ذیلی حصہ ہے جس میں رضاعت کے رشتوں کے حوالے سے نکاح کے جواز اور عدم جواز اور عدم جواز کے مسائل بیان ہوئے ہیں اس کا آخری حصہ کتاب النکاح کا تتمہ ہے۔
ابواسامہ نے ہمیں ہشام سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (عروہ) سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں ان عورتوں پر غیرت کرتی تھی جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بطور ہبہ پیش کرتی تھیں، میں کہتی: کیا کوئی عورت بھی خود کو ہبہ کر سکتی ہے؟ جب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا: (آپ ان عورتوں میں سے جسے چاہیں پیچھے کر دیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور جسے آپ نے الگ کر دیا تھا ان میں سے بھی جسے آپ کا دل چاہے لائیں۔) کہا: تو میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کو نہیں دیکھتی مگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش (کو پورا کرنے) میں جلدی کرتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل
اس آیت کے بعد جو اگلی آیت نازل ہوئی ﴿لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ ...........﴾ (الاحزاب 52:33) (اس کے بعد آپ کے لئے مزید عورتیں حلال نہیں، نہ ہی یہ کہ آپ ان بیویوں کے بدلے میں دوسری کر لیں چاہے ان کا حسن و جمال آپ کو اچھا لگے ..........) (الاحزاب 52:33) اس میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کی جنہوں نے خلوصِ دل سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چن لیا تھا، دلی خواہش بہت اکرام اور اعزاز کے ساتھ پوری فر ما دی اور ان کے مرتبے کو مکمل تحفظ عطا کر دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، مجھے ان عورتوں پر غصہ آتا تھا جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دیتی تھیں، اور میں کہتی، کیا کوئی عورت اپنے آپ کو ہبہ کرنا گوارا کر سکتی ہے؟ تو جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی: (آپ اپنی ازواج میں سے جسے چاہیں پیچھے ہٹا دیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں، اور جسے اپنے سے علیحدہ کر دیا اگر اس کو بلانا چاہیں (تو آپ کو کوئی حرج نہیں) (احزاب: 51) تو میں نے کہا، اللہ کی قسم! میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش بہت جلد پوری کر دیتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
وہ عورتیں جنہوں نے اپنا آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوہبہ کرنا چاہا تھا وہ بقول حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ تین تھیں۔ خولہ بنت حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ فاطمہ بنت شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور یعلی بنت الحلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کی پیش کش قبول نہیں فرمائی۔ تُرجِی اورتُؤوِی کی علماء نے مختلف تفسیریں کی ہیں: 1۔ جمہور کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر باری لازم نہ تھی، جس کو چاہیں اپنے پاس بلائیں اور جس کو چاہیں نہ بلائیں۔ 3۔ جسے چاہیں طلاق دے دیں اور جس کو چاہیں اپنے نکاح میں رکھیں۔ 3۔ اس آیت کا تعلق ان عورتوں سے ہے جنھوں نے اپنے آپ کو ہبہ کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی پیشکش قبول فرمالیں چاہیں تو رد کردیں اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نظریہ کے مطابق اس کا تعلق تیسرے قول ہی سے ہے لیکن بالاتفاق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باری کی پابندی کی ہے اور اس رخصت پر عمل نہیں کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha (Allah be pleased with her) reported: I felt jealous of the women who offered themselves to Allah's Messenger (ﷺ) and said: Then when Allah, the Exalted and Glorious, revealed this: "You may defer any one of them you wish, and take to yourself any you wish; and if you desire any you have set aside (no sin is chargeable to you)" (xxxiii. 51), I ('A'isha.) said: It seems to me that your Lord hastens to satisfy your desire.