قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: کِتَابُ اللِّعَانِ (بَابُ اللِّعَانِ)

حکم : صحیح

ترجمة الباب:

1497 .   حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ، وَعِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيَّانِ، واللَّفْظُ لِابْنِ رُمْح، قَالَا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: ذُكِرَ التَّلَاعُنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ يَشْكُو إِلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ أَهْلِهِ رَجُلًا، فَقَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا إِلَّا لِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا، قَلِيلَ اللَّحْمِ، سَبِطَ الشَّعَرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ خَدْلًا، آدَمَ، كَثِيرَ اللَّحْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ بَيِّنْ»، فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَهَا، فَلَاعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ: أَهِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ رَجَمْتُ هَذِهِ»؟، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ فِي الْإِسْلَامِ السُّوءَ.

صحیح مسلم:

کتاب: لعان کےاحکام ومسائل

 

تمہید کتاب  (

لعان کےاحکام ومسائل

)
 

مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)

1497.   لیث نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے خبر دی، انہوں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں لعان کا تذکرہ کیا گیا تو عاصم بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے بارے میں کوئی بات کہی، پھر وہ چلے گئے، تو ان کے پاس ان کی قوم کا ایک آدمی شکایت لے کر آیا کہ اس نے اپنی بیوی کے پاس کسی مرد کو پایا ہے۔ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں اس مسئلے میں محض اپنی بات کی وجہ سے مبتلا ہوا ہوں، چنانچہ وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اس نے آپ کو اس آدمی کے بارے میں بتایا جسے اس نے اپنی بیوی کے ساتھ پایا تھا اور وہ (تہمت لگانے والا) آدمی زرد رنگت، کم گوشت اور سیدھے بالوں والا تھا، اور جس کے متعلق اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اسے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے وہ بھری پنڈلیوں، گندمی رنگ اور زیادہ گوشت والا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! (معاملہ) واضح فرما۔‘‘ تو اس عورت نے (بعد ازاں جب بچے کو جنم دیا تو) اس آدمی کے مشابہ بچے کو جنم دیا جس کا اس کے خاوند نے ذکر کیا تھا کہ اسے اس نے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان لعان کروایا تھا۔ مجلس میں ایک آدمی نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہسے پوچھا: کیا یہ وہی عورت تھی جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’اگر میں کسی کو بغیر دلیل کے رجم کرتا تو اس عورت کو رجم کرتا‘‘؟ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما  نے جواب دیا: نہیں، وہ عورت اسلام میں (داخل ہو جانے کے باوجود) علانیہ برائی (زنا) کرتی تھی۔ (لیکن مکمل گواہیاں دستیاب نہ ہوتی تھیں-)