باب: جس نے کسی غلام کی ملکیت میں سے اپنا حصّہ آزاد کیا
)
Muslim:
The Book of Emancipating Slaves
(Chapter: One who frees his share of a slave)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1501.
یحییٰ بن یحییٰ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: میں نے امام مالک کو (حدیث سناتے ہوئے) کہا: آپ کو نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی (مشترکہ) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا، اور اس کے پاس اتنا مال ہے جو غلام کی قیمت کو پہنچتا ہے، تو اس کی منصفانہ قیمت لگائی جائے گی۔ اور اس کے شریکوں کو ان کے حصے دیے جائیں گے اور غلام (مکمل طور پر) اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا، ورنہ (اگر اس کے پاس بقیہ حصے کی قیمت ادا کرنے کی سکت نہ ہو تو) اس میں سے جتنا حصہ آزاد ہو گیا وہ اس کی طرف سے آزاد رہے گا۔‘‘
بعثت نبوی ﷺکے وقت پوری دنیا میں غلامی مروج تھی موجودہ انسانی معلومات کے مطابق اسلام سے پہلے نہ کسی مذہب نے اس کے خاتمے کی طرف توجہ کی ،نہ غلاموں کے انسانی حقوق کے بارے میں کوئی ہدایات دیں۔اسلام نے سب سے پہلے یہ حکم جاری کا کہ کسی بھی آزاد کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔اس وقت تک جنگ میں مغلوب ہونے والوں کو نئے نظام اور نئے معاشرے میں جذب کرنے کا یہی طریقہ رائج تھا کہ ان کو غلام بنا لیا جائے اسلام کے مخالفین نے اسلام کے خلاف یک طرفہ طور پر شدید جارحیت شروع کر رکھی تھی او روہ قیدیوں کو غلام بنانے کے دستور پر عمل پیرا تھے بلکہ ساری دنیا اسی پر عمل پیرا تھی اس لیے اسلام ، اس صورت حال کو ختم کرنے کے لیے فوری طور پر یہ فیصلہ نہیں کر سکتا تھا کہ مسلمان جنگی قیدیوں کو غلام نہ بنائیں اور یک طرفہ مسلمانوں ہی کو غلام بنایا جاتا رہے مسلمانوں کو اس کا پابند کیا گیا صورتِ حال کے مطابق حکومت اس بات کا فیصلہ کرے کہ کن مفتوحین کو غلام بنانا ہے اور کن کو نہیں بنانا اس کے بعد اسلام نے غلاموں کی آزادی کی ہر انتہائی نمایاں کیا ۔ غلام یا کنیز مکاتبت کرنا چاہیے یعنی کما کر اپنی قیمت ادا کر کے آزادی حاصل کرنا چاہیے ، تو مالکوں کے لیے لازمی قرار دیا کہ وہ اس پیشکش کو قبول کریں امام مسلم نے کتاب العتق کا آغاز جس حدیث سے کیا ہے اس میں بھی اسی بات کا اہتمام نمایاں نظر آتا ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو انسانوں کی غلامی سے آزادی کی سبیل نکالی جائے جو غلام کو آزاد کرتا تھا اس کے ساتھ سابقہ غلام یا کنیز کا خاندان جیسا ایک تعلق ہوتا تھا جسے موالاۃ کہا جاتا تھا اس کے تحت سابقہ غلام کو شناخت بھی ملتی تھی اور حمایت اور حفاظت بھی ۔ وہ بھی ضرورت کے وقت سابقہ مالکوں کے ساتھ تعاون کرتا تھا اور ان کے کام آتا تھا موالات کے ضوابط بھی اس طرح مقرر کیے گئے کہ آزادی کا راستہ پچیدگیوں سے پاک اور آسان ہو جائے ۔ یہاں تک کہ کسی غلام کی مکاتبت ہو چکی ہو اور کوئی شخص یکمشت اس کی قیمت مالکوں کو ادا کر کے اسے آزاد کرنا چاہیے تو سابقہ مالک اپنے لیے موالات کا مطالبہ کر کے آزادی کا راستہ نہیں روک سکتا۔
کنیز اگر کسی غلام سے بیاہی ہوئی ہے اور صرف اس کے آزادی حاصل ہو جاتی ہے تو اسے ایک آزاد انسان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے تمام حقوق حاصل ہو جائیں گے حتی کہ غلام کے ساتھ نکاح کو بر قرار رکھنا بھی اس کی اپنی صوابد ید پر مبنی ہوگا رسول اللہ ﷺ نے ضمانت دی ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے کسی کو غلامی کے بندھن سےنکال کر آزاد کرنا ایک مومن کے لیے جہنم سے آزادی کا پروانہ ہےمختصر سی کتا ب العتق ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔
یحییٰ بن یحییٰ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: میں نے امام مالک کو (حدیث سناتے ہوئے) کہا: آپ کو نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی (مشترکہ) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا، اور اس کے پاس اتنا مال ہے جو غلام کی قیمت کو پہنچتا ہے، تو اس کی منصفانہ قیمت لگائی جائے گی۔ اور اس کے شریکوں کو ان کے حصے دیے جائیں گے اور غلام (مکمل طور پر) اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا، ورنہ (اگر اس کے پاس بقیہ حصے کی قیمت ادا کرنے کی سکت نہ ہو تو) اس میں سے جتنا حصہ آزاد ہو گیا وہ اس کی طرف سے آزاد رہے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے مشترکہ غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا، اور اس کے پاس اتنا مال ہے، جو غلام (کے باقی حصہ) کی قیمت ادا کر سکتا ہے، تو اس کی خاطر منصفانہ قیمت لگائی جائے گی، اور وہ اپنے حصہ داروں کو ان کے حصے (کی رقم) ادا کر دے گا، اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا، اگر اس کے پاس قیمت نہ ہو، تو اس نے جتنا حصہ آزاد کیا ہے اتنا آزاد ہو گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
عتق:عتقکا لفظ مختلف معانی کےلیے استعمال ہوتا ہے، کرم، جمال، شرف ونجابت، آزادی اور حریت،اور جب کہیں أَعْتَقَ العَبدَ فلان تو معنی ہوگا، اس نے غلام کو آزاد کر دیا۔ (2) شرك حصہ۔
فوائد ومسائل
اسلام نے جنگی قیدیوں کو پہلے سے موجود اور ازواج پذیر، نظریہ کے مطابق ان کی بہتری اور تعلیم تربیت کی خاطر ان کو غلام بنانے کی اجازت دی ہے لیکن ان کو یونانیوں رومیوں اور مغربی اقوام کے دستور کے مطابق ڈھورڈنگروں کی طرح نہیں رکھا اور ان کو شرف انسانیت سے محروم نہیں کیا، ان کو شرف انسانی بخشا اور ان کے حقوق بیان کیے، بلکہ ان کو بھائی قرار دیا ، ان سے حسن سلوک کی تعلیم دی، آپﷺ نے فرمایا: (أَكْرِمُوهُمْ كَرَامَةَ أَوْلادِكُمْ) ان کو اپنی اولاد کی طرح عزت و شرف دو۔ اور فرمایا: کوئی انسان عبدی (میراغلام) امتی (میری لونڈی) نہ کہے اور مملوک اپنے آقا کو ربی نہ کہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے آخری سانس کے وقت فرمایا: (الصَّلاَةَ وما مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ) نماز اور اپنے مملوکوں کا دھیان رکھنا، اس لیے مختلف طریقوں سے ان کو آزاد کرنے کی ترغیب دلائی، اس اصول کے مطابق اگر کوئی مشترکہ غلام میں اپنا حصہ آزاد کرتا ہے اور اس کو باقی حصہ آزاد کرنے کی توفیق حاصل ہے تو اس کو یہی حکم دیا کہ وہ باقی حصہ بھی آزاد کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Umar (RA) reported Allah's Messenger may peace be upon him) as saying: If anyone emancipates his share in a slave and has enough money to pay the full price for him, a fair price for the slave should be fixed, his partners given their shares, and the slave be thus emancipated, otherwise he is emancipated only to the extent of the first man's share.