باب: غلام کو آزادی کی قیمت ادا کرنے کے لیے جدوجہد (کام وغیرہ)کرنے کا موقع دینا
)
Muslim:
The Book of Emancipating Slaves
(Chapter: A slave working to pay off the other half)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1503.
اسماعیل بن ابراہیم نے ہمیں ابن ابی عروبہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے قتادہ سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ روایت کی، آپﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کسی غلام میں سے اپنا حصے آزاد کیا، اگر اس کے پاس مال ہے تو اس (غلام کے باقی حصے) کی آزادی اسی کے مال میں سے ہو گی اور اگر اس کے پاس مال نہیں تو (آزادی دلانے کے لیے) کسی مشقت میں ڈالے بغیر غلام سے کام کروایا جائے گا۔‘‘
بعثت نبوی ﷺکے وقت پوری دنیا میں غلامی مروج تھی موجودہ انسانی معلومات کے مطابق اسلام سے پہلے نہ کسی مذہب نے اس کے خاتمے کی طرف توجہ کی ،نہ غلاموں کے انسانی حقوق کے بارے میں کوئی ہدایات دیں۔اسلام نے سب سے پہلے یہ حکم جاری کا کہ کسی بھی آزاد کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔اس وقت تک جنگ میں مغلوب ہونے والوں کو نئے نظام اور نئے معاشرے میں جذب کرنے کا یہی طریقہ رائج تھا کہ ان کو غلام بنا لیا جائے اسلام کے مخالفین نے اسلام کے خلاف یک طرفہ طور پر شدید جارحیت شروع کر رکھی تھی او روہ قیدیوں کو غلام بنانے کے دستور پر عمل پیرا تھے بلکہ ساری دنیا اسی پر عمل پیرا تھی اس لیے اسلام ، اس صورت حال کو ختم کرنے کے لیے فوری طور پر یہ فیصلہ نہیں کر سکتا تھا کہ مسلمان جنگی قیدیوں کو غلام نہ بنائیں اور یک طرفہ مسلمانوں ہی کو غلام بنایا جاتا رہے مسلمانوں کو اس کا پابند کیا گیا صورتِ حال کے مطابق حکومت اس بات کا فیصلہ کرے کہ کن مفتوحین کو غلام بنانا ہے اور کن کو نہیں بنانا اس کے بعد اسلام نے غلاموں کی آزادی کی ہر انتہائی نمایاں کیا ۔ غلام یا کنیز مکاتبت کرنا چاہیے یعنی کما کر اپنی قیمت ادا کر کے آزادی حاصل کرنا چاہیے ، تو مالکوں کے لیے لازمی قرار دیا کہ وہ اس پیشکش کو قبول کریں امام مسلم نے کتاب العتق کا آغاز جس حدیث سے کیا ہے اس میں بھی اسی بات کا اہتمام نمایاں نظر آتا ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو انسانوں کی غلامی سے آزادی کی سبیل نکالی جائے جو غلام کو آزاد کرتا تھا اس کے ساتھ سابقہ غلام یا کنیز کا خاندان جیسا ایک تعلق ہوتا تھا جسے موالاۃ کہا جاتا تھا اس کے تحت سابقہ غلام کو شناخت بھی ملتی تھی اور حمایت اور حفاظت بھی ۔ وہ بھی ضرورت کے وقت سابقہ مالکوں کے ساتھ تعاون کرتا تھا اور ان کے کام آتا تھا موالات کے ضوابط بھی اس طرح مقرر کیے گئے کہ آزادی کا راستہ پچیدگیوں سے پاک اور آسان ہو جائے ۔ یہاں تک کہ کسی غلام کی مکاتبت ہو چکی ہو اور کوئی شخص یکمشت اس کی قیمت مالکوں کو ادا کر کے اسے آزاد کرنا چاہیے تو سابقہ مالک اپنے لیے موالات کا مطالبہ کر کے آزادی کا راستہ نہیں روک سکتا۔
کنیز اگر کسی غلام سے بیاہی ہوئی ہے اور صرف اس کے آزادی حاصل ہو جاتی ہے تو اسے ایک آزاد انسان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے تمام حقوق حاصل ہو جائیں گے حتی کہ غلام کے ساتھ نکاح کو بر قرار رکھنا بھی اس کی اپنی صوابد ید پر مبنی ہوگا رسول اللہ ﷺ نے ضمانت دی ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے کسی کو غلامی کے بندھن سےنکال کر آزاد کرنا ایک مومن کے لیے جہنم سے آزادی کا پروانہ ہےمختصر سی کتا ب العتق ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔
اسماعیل بن ابراہیم نے ہمیں ابن ابی عروبہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے قتادہ سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ روایت کی، آپﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کسی غلام میں سے اپنا حصے آزاد کیا، اگر اس کے پاس مال ہے تو اس (غلام کے باقی حصے) کی آزادی اسی کے مال میں سے ہو گی اور اگر اس کے پاس مال نہیں تو (آزادی دلانے کے لیے) کسی مشقت میں ڈالے بغیر غلام سے کام کروایا جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دیا، تو اس کو آزاد اس کے مال سے کیا جائے گا اگر وہ مال دار ہے اگر اس کے پاس مال نہیں ہے، تو غلام سے محنت و مزدوری (کمائی) کرائی جائے گی لیکن اس کو مشقت میں نہیں ڈالا جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) شِقْصٌ: حصہ، اس کو شقیص بھی کہتے ہیں۔ (2) اُسْتُسْعِي:اس سے محنت ومزدوری کروائی جائے گی، تاکہ دوسرے حصہ دار کے حصہ کی رقم اس کو ادا کر دی جائے۔ (3) غَيْرِ مَشْقُوقٌ عَلَيه: بغیر اس کے کہ اس کو مشقت اور کلفت میں ڈالا جائے،آسانی اور سہولت سے وہ کما کردےدے۔
فوائد ومسائل
اگر ایک غلام میں ایک سے زائد حصہ دار ہیں اور ان میں سے ایک اپنا حصہ آزاد کر دیتا ہے تو باقی حصہ کے بارے میں کیا ہوگا، اس کے بارے میں مشہور اقوال تین ہیں۔ 1۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر مشترک غلام میں اپنا حصہ آزاد کرنے والا مال دار ہے تو اس کا حصہ آزاد ہو گیا۔ اور اس کے شریک کو اختیار ہے، چاہے تو اپنا حصہ آزاد کر دے، یا غلام سے محنت و مزدوری کروا کر اپنے حصہ کو منصفانہ قیمت وصول کر لے اور غلام مکاتب کے حکم میں ہو گا اور ان دونوں صورتوں میں ولاء (نسبت) حصہ داروں میں مشترک ہو گی، یا آزاد کرنے والے کو باقی حصہ کا ضامن ٹھہرایا جائے گا، اور اس سے عادلانہ قیمت وصول کر لی جائے گی۔ اور ولاء صرف آزاد کرنے والے کے لیے ہوگی۔ اگر آزاد کرنے والا مال دار نہیں ہے تو مذکورہ پانچ صورتوں پر عمل ہوگا۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کےنزدیک اگر آزاد کرنے والا مال دار ہے تو پورا غلام آزاد ہو جائے گا۔ اور وہ دوسرے حصہ دار کو عادلانہ قیمت ادا کرنے کا ذمہ دار ہو گا۔ اور اگر وہ غریب ہے تو رقم غلام سے محنت و مزدوری کروا کر ادا کرے گا۔ اور دونوں صورتوں میں ولاء کا حق دار وہی ہو گا۔ 2۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، کےنزدیک اگر اپنا حصہ آزاد کرنے والا مال دار ہے تو غلام پورا آزاد ہو جائے گا ،اور وہ اپنے شریک کو اس کے حصہ کی منصفانہ قیمت دے گا۔ اور اگر غریب ہے تو غلام کا اتنا حصہ آزاد ہو گا۔ جتنا اس نے آزاد کیا ہے، باقی حصہ غلام ہے اور شریک اس سے اپنے حصہ کے بقدر خدمت اور کام لے سکے گا۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا موقف بھی یہی ہے صرف اتنا فرق ہے کہ ان کے نزدیک مال دار ہونے کی صورت میں جب وہ اپنے حصہ دار کو رقم ادا کردے گا، تو اس کے بعد غلام مکمل آزاد ہوگا، محض ضمانت پر آزاد نہیں ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) (Allah be pleased witli him) reported Allah's Prophet (ﷺ) as saying: If anyone emancipates a share in a slave, he is to be completely emancipated if he has money; but if he has none, the slave will be required to work to pay for his freedom, but must not be over-burdened.