Muslim:
The Book of Transactions
(Chapter: The invalidity of Mulamasah and Munabadhah transactions)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1513.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے کنکر پھینک کر بیع کرنے اور دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے۔
تشریح:
فوائد و مسائل:
کنکر کے ذریعے سے بیچی جانے والی چیز، مثلاً زمین یا کپڑے وغیرہ کا لمبائی کا تعین کرنا، یا کنکر پھینکنے کے ذریعے سے سوچنے کا پورا موقع دیے بغیر بیع ہوجانے کا فیصلہ کر دینا، سب دھوکے اور فریب کے ضمن میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی جس طریقے سے دھوکا دیا جائے وہ بیع کو فاسد کر دیتا ہے۔
تجارت انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ انسانوں کو ہر وقت مختلف اشیاء کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ اس کی تمام اشیاء بیک وقت حاصل کر کے ان تمام کا ذ خیرہ نہیں کر سکتا۔ بعض اشیاء کو زیادہ مقدار میں ذخیرہ کیا ہی نہیں جاسکتا، اس لیے ایسے لوگوں کی موجودگی جومختلف اشیاء کو لائیں ، رکھیں اور ضرورت مندوں کو قیمت مہیا کر میں ناگزیر ہے۔
خرید وفروخت کے معاملات اگر انصاف پر مبنی ، دھوکے اور فریب سے پاک اور ضرر سے محفوظ ہوں تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا ہوتا نہیں۔ انسانی معاشرے میں تجارت کی تاریخ جتنی پرانی ہے، تجارت کی آڑ میں لوگوں کے استحصال کی تاریخ بھی تقریبا اتنی ہی پرانی ہے۔ اسلام کا مشن یہی ہے کہ انسانی زندگی کے تمام معاملات عدل و انصاف، انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور اجتمائی اور انفرادی فلاح و بہبود پر استوار کیے جائیں۔ انسانی تاریخ میں تجارت کو سب سے پہلے ان بنیادوں پر استوارکرنے کا سہرا اسلام کے سر ہے۔
بعثت سے پہلے عرب سمیت پوری دنیا میں ایسے سودوں ، خرید و فروخت کی ایسی صورتوں کی بھر مارتھی جن میں کسی نہ کسی فریق کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ خرید وفروخت کے طریقوں میں دھوکا شامل تھا۔ اس حوالے سے کیے گئے معاہدوں میں فریب موجود تھا۔ قیمت اور اشیاء اجناس، منفعت یا خدمات جن کا لین دین ہوتا تھا ، ان سب میں فریب شامل تھا۔ عرب میں فریب پرمبی بیع کی جو صورتیں رائج تھیں ان میں ملامسہ اور منابذہ بھی تھیں ۔ اگر خر یدا غور کیے بغیر کپڑے کو چھو لے تو بیع پکی ہوگئی ، مثلا: تم اپنا کپڑا میری طرف پھینک دو، میں اپنا کیر تمھاری طرف پھینک دیتا ہوں سودا کیا ہو گیا، جس کی جو قسمت اسے مل جائے گا۔ میں ایک کنگری پھینکوں گا جس کپڑے کی جس لمبائی تک جائے گی، وہ تمھارا ‘‘ اس میں سوچنےسمجھنے کی گنجائش نہ صحیح پیمائش کی ۔ وہ ایسی چیزوں کی بیع بھی کر لیتے تھے جو ابھی وجود میں نہیں آئیں، اس کا دیکھنا مکن نہ رکھنا ، مثلا: یہ کہ اونٹنی بچہ دے گی ، وہ حاملہ ہو کر پھر بچہ دے گی وہ تمھارا ہوگا ۔ یہ حبل الحبلہ بیع کہلاتی تھی۔
مصنوعی طریقے سے قیمت بڑھانے کے حیلے کیے جاتے تھے۔ اب بھی کیے جاتے ہیں۔ فرضی گا ہک کھڑےکر کے ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں بڑھائی جاتی تھیں ۔ اسے نجش کہا جاتا تھا۔ اب اشتہار بازی کے ذریعے باور کرایا جاتا ہے کہ فلاں چیز آپ کی شدید ضرورت ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ خریدنے میں بھی فریب کا چلن تھا۔ راستے میں جا کر، منڈی کے بھاؤ سے بے خبر مال لانے والوں سے اشیاء خریدنا ، جوشخص منڈی کے ریٹ پر اپنی اشیاء فروخت کرنا چاہتا ہے، اسے زیادہ قیمت کا لالچ دے کر فروخت کی ذمہ داری لینا اور قیمتیں بڑھا کر خود فائدہ اٹھانا اور مہنگائی پیدا کرتا۔ دودھ دینے والے جانورکے تھنوں میں دودھ روک کر زیادہ قیمت پر بیچنا، اشیاءکو تولے یا نا پے بغیر ان کا سودا کر لینا ، باغ کے درختوں پر بور لگتے ہیں یا اس سے بھی پہلے ان کے پھل کا سودا کر دیتا چاہیے بورہی نہ لگے،یالگے تو آندھی یا بیماری وغیرہ کا شکار ہو کر ضائع ہو جائے ۔ فصل پکنے کے بعد اناج اکٹھا کر کے وزن باماپ سے بچنے کی بجائے کھڑی فصل کو اناج کی متعین مقدار کے عوض بیچ دینا، چیز کا عیب چھپا کر دھوکے سےبیچ دینا، غیر منصفانہ طریقے سے زمین کو اجرت پر دینا، یہ سب دھوکے اور فریب کی صورتیں معاشرے میں رائج تھیں۔ رسول اللہ ﷺنے فریب مبنی لین دین کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیا۔ دیکھ بھال کر، پرکھ کر اور تسلی سے قیمت چکا کر سودا کرنےکے طریقے رائج فرمائے ۔ لین دین کرنے والے فریقوں کو سودا ہو جانے کے بعد بھی مناسب وقت تک اس کی واپسی کا اختیار دیا۔ عیب اور دھوکے کی بنا پر پتہ لگنے تک واپسی کو یقینی بنایا ۔ غرض چیز، قیمت، خریدار فروخت کرنے والے ، خرید و فروخت کی صورت اور شرائط ، تمام اجزائےبیع کے حوالے سے دیانت و امانت، شفافیت، حقوق کی پاسداری اور کسی بھی غلطی کے ازالے کو یقینی بنایا۔ ان اصلاحات کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کا انداز تجارت انتہائی مقبول ہو گیا۔ مسلمان تاجر اسلامی معاشرے کے نقیب بن گئے اور عالمی تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ پوری دنیا نے ان میں سے اکثر اصولوں کو تجارت کی بنیاد کے طور پر اپنا لیا۔ بعض معاشروں نے البتہ سود اور حرام چیزوں کی خرید وفروخت کونئی سے نئی صورتوں میں نہ صرف جاری رکھا بلکہ ان کے ذریعے سے دنیا بھر کا استحصال کیا اور ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لین دین کے پورے نظام کا بغور جائزہ لیا جائے تو انصاف اور اجتماعی فلاح کی ضمانت انہی اصولوں پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے جو اسلام نے رائج کیے ہیں ۔ افسوں کہ خود مسلمان انصاف اور فلاح کے ان اصولوں کوچھوڑ کر ظالمانہ طریقوں پر عمل پیرا ہو گئے اور تجارت میں بھی شدید پسماندگی کا شکار ہو گئے ۔ دوسرے معاشروں نے جس حد تک دیانت و امانت کے اسلامی اصولوں کو اپنایا اسی نسبت سے وہ آگے بڑھ گئے۔ صحیح مسلم کی کتاب البیوع کے بعد کتاب المساقاة والمزارعد بھی لین دین کے اصولوں پر محیط ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے کنکر پھینک کر بیع کرنے اور دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل:
کنکر کے ذریعے سے بیچی جانے والی چیز، مثلاً زمین یا کپڑے وغیرہ کا لمبائی کا تعین کرنا، یا کنکر پھینکنے کے ذریعے سے سوچنے کا پورا موقع دیے بغیر بیع ہوجانے کا فیصلہ کر دینا، سب دھوکے اور فریب کے ضمن میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی جس طریقے سے دھوکا دیا جائے وہ بیع کو فاسد کر دیتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری پھینکنے کی بیع اور دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
بیع الحصاۃ، اس کی تین صورتیں ہیں: (1) کپڑوں کے ڈھیر یا تھانوں پر میں کنکر پھینکتا ہوں، جس پر وہ گرے وہ اتنی قیمت میں تیرا ہو گا یا میں یہاں سے کنکر پھینکتا ہوں جہاں گرے گا وہاں تک زمین، اس قیمت پر تیری ہو گی۔ (2) یہ چیز میں تمہیں اتنے میں فروخت کرتا ہوں، جب میں یہ کنکر پھینک دوں گا۔ تو بیع پختہ ہو جائے گی اور تمہارا اختیار ختم ہو جائے گا۔ (3) جب میں اس چیز پر کنکر مار دوں گا، تو یہ تیری ہو گی۔ بہرحال ان تینوں صورتوں میں غرر اور دھوکا اور جوا ہے، اس لیے منع ہے۔ امام شافعی نے بیع ملامسہ، بیع منابذہ اور بیع حصاۃ کو اس لیے منع قرار دیا ہے کہ ان میں ایجاب و قبول نہیں ہے، یعنی بائع کہے میں نے بیچ دی اور مشتری کہے میں نے خرید لی، اس پر قیاس کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں بیع تعاطی بھی جائز نہیں ہے جس کی صورت یہ ہے کہ بائع کہے میں یہ چیز اتنے میں دیتا ہوں، مشتری رقم ادا کر کے وہ چیز لے لے، یا خریدار بائع کو کہتا ہے، میں اس چیز کی اتنی رقم دیتا ہوں، تو وہ اٹھا کر چیز اس کو دے دے۔ تو یہاں زبان سے ایجاب و قبول نہیں ہوا، کہ میں دیتا ہوں، میں لیتا ہوں، حالانکہ فعلاً تو یہاں ایجاب و قبول ہو گیا ہے اور اس میں جہالت اور غرر کی کوئی صورت بھی نہیں ہے، اس لیے باقی ائمہ کے نزدیک یہ جائز ہے اور لوگوں کا یہی عرف اور رواج ہے جو ہر جگہ جاری ہے۔ بیع غرر: جس میں دھوکا اور فریب ہو، یہ ایک ایسا اصول اور ضابطہ ہے جس کے تحت بے شمار صورتیں آ جاتی ہیں مثلا بھگوڑے غلام کی بیع، بھگوڑے جانور کی بیع، حیوان کے پیٹ کے حمل کی بیع، ہوا میں اڑنے والے پرندوں کے شکار کی بیع، پانی میں مچھلیوں کے لیے جال لگانے کی بیع، ہاں معمولی غرر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مثلا حمام میں نہانا اور ایک معین رقم ادا کرنا، ایک ماہ کے لیے کوئی چیز کرایہ پر دینا، حالانکہ ماہ میں ایک دن کی کمی و بیشی ہوتی ہے۔ اور ہوٹل میں فی آدمی کے کھانے پر یکساں رقم ادا کرنا وغیرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported that Allah's Messenger (ﷺ) forbade a transaction determined by throwing stones, and the type which involves some uncertainty.